- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

تاریخ اسلامی کا المناک باب

gharnataوہ مسلمان تھا اور قلب یورپ کی ایک عظیم مسلم سلطنت کا فرمانروا، وہ جانتا تھا کہ قرآن میں یہود و نصاری کے بارے میں واضح احکامات ہیں کہ وہ کبھی تمہارے ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہو سکتے، مگر اقتدار کی چاہ اور حصولی کیلیے وہ عیسائی بادشاہ کے دربار میں سجدہ ریز تھا، اسکی جاہ طلبی اور ہوس اقتدار نے جسد مسلم پر ایک گہرا گھاو لگا کر مسلمانوں کے نصیب میں تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلیے ایک بدترین شکست لکھ دیا تھا۔

سو ایک قلیل عرصے میں عیسائی بادشاہ کو ملنے والی اس کامیابی نے آنیوالی کئی صدیوں کیلے مسلمانوں کو لہولہان اور شرمسار کر دیا۔
2 جنوری 1492 کی وہ اداس شام اندلس کے مسلمانوں کیلیے قعر و مذلت کا پیغام لیکر آئی، اس شام کے ساتھ آنے والی شب مسلمانوں کی سیاہ بختی کی شب تھی، یہ طویل دور ابتلاء کے آغاز کی پہلی شب تھی، یہ سقوط غرناطہ کی شب تھی۔ غرناطہ کی مہکتی فضاء ملکہ ازابیلا اور فرڈیننڈ کے عیسائی لشکریوں اور گھوڑوں کے ٹاپوں سے گونج رہی تھی، مسجدوں کے صحن ان کے فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں سے لدے خچروں سے بھرے تھے، اس شب مسجدوں کی میناریں اذانوں کی پرسوز و گداز آوازوں سے یکسر محروم تھیں، اذانوں کے بجائے ہر طرف مسلمانوں کی آہ و بکا اور نالہ شیﺅن کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، جشن فتح منانے والے شراب میں مدہوش عیسائی لشکریوں کے ہنکارے، جگہ جگہ لگی ہوئی آگ غرناطہ میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ علمی میراث کو لمحوں میں خاکستر کر رہی تھی۔
اندلس کی گیٹ میں داخل ہونیوالا پہلا مسلمان عبدالرحمن الداخل کے قائم کردہ مرکزی کتب خانے کی 3 لاکھ سے زائد جلدوں کے جلنے سے غرناطہ کے در و دیوار اور فضا ایسے کثیف دھوئیں سے بھر گئے جسکی سیاہی مسلمانوں کے سیہ بختی سے ہرگز کم نہ تھی، ایک جانب عیسائی لشکر گدھوں کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے انکی عزت و ناموس کی دھجیاں اڑا رہے تھے تو دوسری جانب غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ قصر الحمراءمیں اپنے امراءاور حکام کیساتھ سقوط کے معاہدے کے مطابق غرناطہ کی چابیاں ملکہ ازابیلا کو پیش کرنیکی تیاریوں میں مصروف تھے۔ زرق برق لباس میں ملبوس شاہی خاندان کے افراد اور امراءابو عبداللہ کے ہمراہ قصر الحمرا میں ملکہ ازابیلا، فرڈیننڈ، عیسائی افواج کے جرنیلوں اور امراءاور حکام کے استقبال کیلیے تیار تھے۔
اندلس میں مسلم اقتدار کی یہ آخری شام، آخری ہچکی اور آخری بد عملی تھی، وقت پر اختیار جاتا رہے تو ساتھ ہی فیصلہ کرنی کے شرف، فیصلے کی تکریم اور قوت فیصلہ بھی جاتی رہتی ہے، سو امیر عبداللہ کا یہ آخری فیصلہ بھی مسترد کر دیا گیا کہ سقوط کی رسمی کارروائیاں قصرالحمرا میں ادا کی جائے، ملکہ ازابیلا نے امیر عبداللہ کو الحمرا کے باہر کچھ فاصلے پر اس کارروائی کو پورا کرنے کا حکم دیا اور پھر تاریخ نے اس شام کرب انگیز مناظر دیکھے۔
قصر الحمرا کے میناروں پر ملکہ ازابیلا کا شاہی نشان بزور قوت لہرا دیا گیا، اور امیر عبداللہ کو شہر کی فصیل کے دروازے پر ملکہ ازابیلا اورفرڈیننڈ کے ہاتھ چومتے ہوئے دیکھا، غرناطہ کی کنجیاں بادشاہ فرڈیننڈ کے حوالے کرتے ہوئے ابو عبداللہ کے یہ الفاظ مسلمانوں پر آنے والے دنوں کی تلخیوں اور سوائیوں کو کم نہ کر سکے۔
اے بادشاہ….! خدا کی یہی مرضی تھی، ہمیں یقین ہے کہ اس شہر کی رعایا کیساتھ فیاضانہ سلوک کیا جائیگا،غرناطہ ایک طویل عرصہ مسلمانوں کی شان و شوکت اور عروج کا دور دیکھنے کے بعد مسلمان حکمرانوں کی بداعمالیوں، انکی ہوس اقتدار اور جاہ طلبی کی وجہ سے صیلیبیوں کے تسلط میں چلا گیا۔
2 جنوری 1492 کی اس اداس شام کو قصر الحمرا سے نکلنے والے چند سائے شمال کی جانب پہاڑ پر جاتے نظر آئے، تھکے تھکے قدموں سے جانے والے ان افراد میں سے ایک شخص رکا اور حسرت بھری نگاہیں پہاڑ کی بلندی اور اس کے گرد و نواح میں ڈالی اور اپنی شان و شوکت والے بلند و بالا محلات، باغات اور خوبصورتیوں کا نظارہ کرنے لگا، اس کے چہرے پر غم و اندوہ کے بادل چھائے ہوئے تھے، وہ بے اختیار رو پڑا، اس کی ماں اس کی جانب دیکھتی رہی، پھر ایک آہ سرد بھر کر اپنا سر جھکا لیا، پھر اس کی باوقار آواز نے ماحول کی اداسی میں مزید اضافہ کر دیا۔ جس چیز کو مردوں کی طرح نہ بچا سکے آج اس گمشدہ چیز کیلیے عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ….؟
تھکے قدموں سے ذلت و مسکنت کی زندگی کی طرف جانے والا وہ شخص ابو عبداللہ کے سوا کون ہو سکتا تھا؟
ابو عبداللہ اپنی جاگیر کی طرف چلا گیا، اب اسکی کوئی حیثیت نہیں تھی،
غرناطہ میں دشمن نے معاہدے کی تمام شرائط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کیخلاف انتقامی کارروائیوں کا آغاز کر دیا، معاہدہ بھی کیا تھا ؟
اپنی آن، خودداری، عزت و وقار اور سالمیت کے عوض جاں بخشی کی اپیل تھی….
ابو عبداللہ نے خفیہ طور پر اپنے وزیر کو فرڈیننڈ کے پاس صلح کی درخواست کیلیے بھیجا جسے فرڈیننڈ نے منظور کیا اور صلح نامہ تیار کیا گیاجس پر دونوں فریقین نے دستخط کیے، غرناطہ کے مسلمانوں نے آخری وقت تک عیسائیوں کا مقابلہ کیا، وہ ہتھیار نہ ڈالنے کے حق میں تھے، مگر ابو عبداللہ اور اس کے بزدل، بے غیرت و بے حمیت امیروں نے صلح پر زور دیا جس کے نتیجے میں یہ شرمناک معاہدہ طے پایا۔

1۔ مسلمان غریب ہوں یا امیر، انکی جان و مال کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے گا اور جہاں وہ رہنا چاہیں گے خواہ شہر کے اندر یا باہر انہیں رہنے کی اجازت دی جائیگی۔
2۔ ابو عبداللہ اپنے عہدیداروں اور شہریوں سمیت بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کی وفاداری کا حلف اٹھائے گا۔
3۔ مسلمانوں کے مذہبی امور میں عیسائی دخل نہیں دینگےاور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرینگے۔
4۔ تمام مسلمان قیدی آذاد کر دیئے جائیں گے۔
5۔ کوئی عیسائی مسجد میں گھسنے نہیں دیا جائیگا۔
6۔ نومسلم اپنے آبائی مذہب کو اختیار نہ کر سکیں گے۔
7۔ مساجد اور اوقاف بدستور قائم رہیں گے، ان امور میں عیسائی دست اندازی نہ کریں گے۔
8۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین مقدمات ایک مخلوط عدالت کرے گی۔
9۔ مسلمانوں کے معاملات میں شرع اور ان ہی کے قوانین کی پابندی کی جائیگی۔
10۔ اس جنگ میں جن مسلمانوں کو عیسائیوں نے گرفتار کیا ہے، وہ فورا رہا کر دیئے جائیں گے اورجو مسلمان عیسائیوں کی قید سے شہر میں آجائے وہ گرفتار نہ کیے جائیں گے۔
11۔ کوئی مسلمان اندلس سے افریقہ جانا چاہے تو اسکی اجازت دی جائیگی، لیکن ایک مقررہ مدت میں اندلس چھوڑ سکتے ہیں۔
12۔ جو عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں وہ اسلام ترک کرنے پر مجبور نہ کیے جائیں گے۔ اگر کوئی مسلمان عیسائی ہونا چاہے تو اس کی اجازت دی جائیگی۔
13۔ جو مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا ہے وہ بدستور ان کے قبضے میں رہے گا۔
14۔ مسلمانوں کے گھروں میں عیسائی سپاہ متعین نہیں کی جائیگی۔
15۔ موجودہ ٹیکس کے علاوہ مزید ٹیکس مسلمانوں پر نہیں لگائے جائینگے۔
16۔ 3 سال تک مسلمانوں سے کسی قسم کا ٹیکس نہ لیا جائے۔
17۔ سلطان ابو عبداللہ کے سپرد ابشارة کی حکومت کر دی جائیگی۔
18۔ 60 دن کے اندر معاہدے کی تمام شرائط کی تکمیل کر دی جائیگی۔
19۔ معاہدے کا اثر قائم رکھنے اور عیسائیوں کو اسکی پابندی پر مجبور کرنے کی غرض سے رومی پوپ کے دستخط اس معاہدے پر لئے جائیں گےاور وہی اسکی تعمیل کا ذمہ دار ہو گا۔ مسلمانوں پر سوائے عیسائی حاکم کے کوئی اور حاکم نہ ہو گا۔
20۔ 60 دن کے اندر شہرغرناطہ اور قلعہ الحمرا اور تمام سامان جبگ جو اس وقت قلعہ میں موجود ہے، عیسائیوں کے قبضے میں دیدیا جائیگا۔

یہ تھیں ، وہ شرائط جو ابو عبداللہ کی غداری کے نتیجے میں طے ہوئیں، ان شرائط میں بظاہر مسلمانان اندلس کی جان، مال، عزت و آبرواور عبادت گاہوں کی حفاظت کی پوری طرح ضمانت بھی دی گئی تھی، لیکن کچھ عرصے کے بعد اس معاہدے کی شرائط ایک ایک کر کے کالعدم ہونے لگیں، اور مسلمان جو ابو عبداللہ کے ہاتھوں پہلے ہی زخم خوردہ اور تباہ حال تھےاب رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔
غرناطہ جو مسلمانوں کا آخری حصار تھاوہ بھی ٹوٹ گیا اور یہ آخری پناہ گاہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی، ابو عبداللہ نے اس خوف کے سبب کہیں اہل شہر کے ساتھ ساتھ وہ بھی فرڈیننڈ کی فوج کے ظلم و ستم کا نشانہ نہ بن جائے معاہدے کے مطابق 90 دن کے بجائے 60 دن قبل ہی قصر الحمرا فرڈیننڈ کے حوالے کر دیا، عیسائیوں نے الحمرا پر قابض ہو کر معاہدے کی تمام شرائط کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا….
مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو غرض کچھ بھی سلامت نہ رہی….
عیسائی، صلیبی دہشت گرد بنکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے….
تبدیلی مذہب کا ایک حکم جاری کیا گیا جس کے تحت حکم دیا گیا کہ ہر شخص جو مسلمان ہے وہ عیسائیت قبول کر لے ورنہ قتل کر دیا جائیگا، اس حکم کے ذریعے بے شمار لوگ زبرستی عیسائی بنائے گئے، نو مسلم خاندان بھی انکی زیادتیوں سے محفوظ نہ رہے، ہزاروں لوگوں کو سولی پر لٹکا دیا گیا اور قیدی بنا لیا گیا، مدارس میں بچوں کو عیسائیت کی تعلیم دی جانے لگی، صرف ایک دن میں 3 ہزار مسلمانوں کو جبری عیسائی بنایا گیا، کچھ عرصے بعد اعلان ہوا کہ مسلمان اپنے لباس چھوڑ کر مسیحی لباس پہنیں، نہ صرف لباس بلکہ رسم و رواج، طور طریقے، اور زبان بھی ترک کر کے اپنے نام تک بدل ڈالنے پر مجبور کیا گیا۔
ان وحشی درندوں نے نہ عورتوں کو چھوڑا نہ بچوں پر رحم کھایا اور نہ ہی مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے تقدس کو قائم رکھاجس کا وعدہ انہوں نے صلح کی ایک شرط کے ذریعے کیا تھا، مسجدوں کو گھورڑوں کا اصطبل بنا دیا گیا، ایک مسجد کو بارود سے اڑا دیا جس میں ہزاروں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے پناہ لیے ہوئے تھے، غرض مسلمانوں پر مظالم کی انتہا جاری تھی، عیسائی صلح کی تمام شرائط فراموش کر کے بد عہدی کی بدترین مثال پیش کر رہے تھے جو اندلس کے تمام مسلمانوں کیلیے ناقابل برداشت بن چکا تھا، کچھ مسلمانوں نے مزاحمت کی کوشش کی جنہیں سختی سے کچل دیا گیا، اس مزاحمت کے بعد مظالم میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا، ابشاراة میں ابو عبداللہ کے تمام خاندان کو قتل کر دیا گیا، اور اس علاقے کو مسلمانوں کا مذبح خانہ بنا دیا گیا جہاں مسلمانوں کو قربانی کے جانوروں کی طرح ذبح کر کے تماشہ دیکھا جاتا۔
ان مظالم کے بعد 1611ءمیں یہ فیصلہ بھی ہو گیا کہ تمام مسلمانوں کو یا تو عیسائی بنا دیا جائے یا ان کو اندلس سے نکال دیا جائے، چنانچہ 2 ہی سال میں اخراج کا قانون منظور ہوا، اور اس پر فوری عملدرآمد کر کے لاکھوں مسلمانوں کو اندلس سے نکال دیا گیا۔ انہیں نکالتے وقت بھی عیسائی صلیبی دہشتگردوں نے اذیت پہنچانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، خود ایک عیسائی مورخ مسلمانوں کے اخراج سے متعلق اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔
”مسلمانوں کا یہ اخراج تاریخ انسانیت کا زبردست اور شدید سربریت کا اقدام تھا،بالآخر عیسائیوں نے مسلمانوں کو اندلس سے نکال کر انکے نام و نشان تک کو اس سرزمین سے مٹا دیا جہاں انہوں نے تقریبا 800 سال تک حکومت کی، یہ تاریخ انسانیت کا ایک عبرتناک باب ہے، وہ مسلمان جن کی وجہ سے اندلس سینکڑوں برس تک تہذیب اور شائستگی کا مرکز، علوم و فنون کا سر چشمہ رہ چکا تھا، جنکی بدولت اس خطہ زمین کو صدیوں علمی، فنی، تہذیبی اور ثقافتی مرکز بننے کا فخر حاصل رہا ہےاور جسکی ہمسری یورپ کی کوئی قوم نہ کر سکی اور نہ ہی کوئی ملک مقابلہ کر سکا تھا، ان کو عیساءصیلیبی دہشتگردوں نے جلا وطن کر کے نام و نشان تک مٹا دیا۔
اس سرزمین پر اب خدائے بزرگ و برتر کا نام لیوا ایک متنفس بھی نہ بچا تھا، ہجرت سے پہلے روانہ ہوہنے والے قافلے کی گرد میں مسلمانوں کی نشانیاں بھی مٹ گئیں، بے شمار مسلمان عورتیں اور بچے سفر کی صعوبتوں کی تاب نہ لاکر راستے ہی میں جان ہار گئے، اسلامی تاریخ کا یہ المناک باب تھا جو ختم ہوا ، 800 برسوں تک حکومت کرنے اور 900 برسوں تک وہاں رہنے بسنے والوں کی آج ہسپانیہ میں کچھ پرانے کھنڈروں اور اذانوں کی آواز سے محروم جامع مسجد قرطبہ جیسی چند مساجد کے سوا اورع کوئی نشانی موجود نہیں۔

ضیاءشاہد
(بہ شکریہ اداریہ کراچی اپ ڈیٹس ڈاٹ کام)