- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

کردستان کی اسلامی تاریخ پر ایک نظر

kurdistanmapکردوں کا شمار آریائی قوم کی ہندی۔ یورپی نسل سے ہوتاہے جو مشرق وسطی کے مختلف ملکوں میں رہتے ہیں۔ کردوں کی صحیح تعداد معلوم کرنا مشکل کام ہے چونکہ یہ بڑی قوم بیک وقت عراق، ایران، ترکی، شام اور سابق سوویت یونین کے بعض ملکوں میں آباد ہے۔ جبکہ کردوں کے بعض گروہ لبنان، یمن، پاکستان اور یورپی ممالک خاص کر جرمنی، سوئٹرز لیند اور امریکا میں رہتے ہیں۔ اندازے سے ان کی تعداد ساڑھے تین کروڑ (۳۵میلین) بتائی جاسکتی ہے۔ دنیا میں واحد قوم ’’کرد‘‘ ہے جو تیس میلین سے زائد آبادی کے باوجود اپنے قومی حقوق سے محروم ہے۔ مشرق وسطی اور ایشیائے کوچک میں کرد تیسری بڑی نسل ہے جس کا نمبر عرب (سولہ کروڑ آبادی) اور ترک نسل (چھ کروڑ) کے بعد آتا ہے۔

اگر جغرافیائی طور پر کردوں کے علاقے کا نقشہ پیش کیا جائے تو اس نقشے کی شمالی سرحدیں ’’ارارات‘‘ پہاڑیوں سے شروع ہوتی ہیں جو ایران، ارمینیا اور ترکی کی سرحدوں سے لگتی ہیں۔ جنوب میں ’’حمرین‘‘ پہاڑی علاقہ آتاہے جو بغداد و بصرہ اور ’’عثمانی موصل‘‘ کے درمیان واقع ہے۔ جبکہ کرد خطے کی مشرقی سرحد ایران کے علاقہ ’’لرستان‘‘ کے آخر تک پھیلی ہوئی ہے اور مغرب میں ترکی کا صوبہ ’’ملاطیہ‘‘ آتا ہے۔
کردستان کا کل رقبہ تقریباً 500,000 کیلومٹر (۵ لاکھ) ہے۔ یہ خطہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جس کی زمین زراعت کے قابل ہے جہاں متعدد نہریں زمین اور اس پر رہنے والوں کو سیراب کرتی ہیں۔ متعدد چشموں، قنات اور نہروں کے علاوہ اس سرزمین نے اپنے اندر بیش بہا معدن، تیل ودیگر خزانے چھپا رکھی ہے۔
کردستان خوبصورت آبشاروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے جن کی وجہ سے یہاں زراعت کو کافی ترقی ملتی رہتی ہے۔ کردستان معدنیات سے مالامال خطہ ہے خاص کریہاں تیل کی دولت کی فراوانی ہے، حتی کہ اس کی پیداوار (۴۵ ارب بر میل) امریکا سے بھی زیادہ ہے۔
کردستان جو کوردوں کا مادر وطن ہے ہرگز ایک مستقل ریاست نہیں رہاہے جس کی متعین سیاسی سرحدیں ہوں۔ ’’کردستان‘‘ کا لفظ پہلی دفعہ بارہویں عیسوی صدی میں وجود میں آیا جب سلجوقی خاندان حکمرانی کر رہاتھا۔ سلجوقی بادشاہ نے خطے کا مغربی حصہ الگ کرکے اس کا نام کردستان رکھا اور اپنے قریبی دوست سلیمان شاہ کو اس کا حاکم بنا دیا۔
بنیادی طور پر کردستان تین ملکوں میں بٹ چکا ہے۔ عراق، ایران اور ترکی کے علاوہ اس کا ایک چھوٹا حصہ شام Syria میں واقع ہے۔ ترکی کے نوے صوبوں میں سے اْنیس صوبے کرد آبادی کی ہیں جو ترکی کے جنوب مشرق اور مشرقی حصہ میں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ کردوں کی قابل ذکر تعداد بعض دیگر ملکوں مثلاً آذربائیجان، آرمینیا، پاکستان، بلوچستان اور افغانستان میں رہتی ہے۔ تیس سے چالیس میلین آبادی کے کرد ترکی میں کل آبادی کی تقریباً 46 فیصد، ایران میں 31فیصد، عراق میں18 فیصد جبکہ آرمینیا اور شام میں 5 فیصد بنتے ہیں۔
تقریباً تمام کرد مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت کے شافعی مسلک کی پیروی کرتے ہیں۔ البتہ بلوچستان کے کرد جو اب بلوچی بولتے ہیں، حنفی مسلک پر ہیں۔ جبکہ جنوبی کردستان میں شیعہ کردوں کی ایک چھوٹی برادری آباد ہے۔ عیسائی کردوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کرد عیسائی خود کوپہلے ’’اثوری‘‘ اور اب ’’آشوری‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ برادری عراقی کردستان کے شمال میں رہتی ہے۔ دوسری عیسائی برادری خودکو ’’کلدان‘‘ کہلاتی ہے جو آشوریوں سے بھی کم ہیں اور ’’سلیمانیہ‘‘ شہر میں آباد ہے۔ ان کے علاوہ بعض منحرف فرقوں کے پیروگار مثلاً کا کانیہ اور اہل حق گروپ بھی کردستان میں رہتے ہیں جو عراقی و ایرانی کردستان کے جنوب میں آباد ہیں۔

کردوں کی اسلامی تاریخ کے مطالعے کی ضرورت:
کرد قوم کا شمار مسلم اقوام کی طاقت ور اور اہم قوموں میں ہوتا ہے۔ تاریخی حوالے ان کی غیرت وبہادری اور طاقت کے گواہ ہیں۔ اس کے باوجود کرد قوم کی تاریخ اور روشن ماضی کے گہرے مطالعے کی ضرورت ہے۔ چونکہ متعدد سامراجی قوتوں اور مستشرقین نے ان کی تاریخ میں تحریف کی ہے اور ان کے مثبت پہلووں کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ ان مغرض تاریخ نویسوں نے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کرد نادان، ان پڑھ اور وحشی قسم کے لوگ ہیں جنہیں ثقافت وتہذیب سے کوئی واسطہ نہیں ہے!
دوسری جانب طلوع اسلام کے بعد یہ عظیم قوم بعض تبدیلیوں کا شکار ہوئی چنانچہ ان کے ماضی کے بارے دیگر اقوام کو بہت کم معلوم ہے۔ مسلمان عربوں کی معلومات کرد قوم کے بارے میں اس حد تک ہے کہ یہ لوگ بڑے بہادر جنگجو ہیں اور انہوں نے اسلامی سرحدوں کے دفاع میں قربانیاں دی ہیں۔ مزید بر آں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد قومیت کے نعرے بلند ہوئے اور لسانی تعصب کی وجہ سے کرد قوم اپنے اصل مقام کے بارے میں لاعلم رہی اور اپنا تابندہ ماضی بھول گئی جس پر اسے فخر کرنا چاہیے۔
اس مختصر میں ایک قوم کی پوری تاریخ آپ کے سامنے پیش کرنا نہیں بلکہ ایک مسلم قوم کے عہد رفتہ پر روشنی ڈالنی ہے جس کا اسلامی تاریخ کی ترقی و ایجاد میں بڑا کردار رہا ہے۔ اسلامی تاریخ کا انحصار عربوں پر نہیں ہے! بلکہ اس روشن وقابل فخر تاریخ میں تمام مسلم قوموں کے نام آتے ہیں۔
کرد قوم کے خدمات اور اسلامی ہونے کی دو دلیلیں ملاحظہ کیجیے:
1۔ عظیم الشان صحابی رسول جابان الکردی: جابان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے جن سے بعض احادیث بھی روایت ہوچکی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ’’أسد الغابۃ‘‘ اور الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ‘‘ جیسی معتبر کتابوں میں آیا ہے۔ حقیقت میں اس عظیم صحابی کی حیات کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ تراجم کی کتابوں میں آپ (رض) کے حوالے صرف چند سطریں لکھی ہوئی ہیں۔ البتہ اس کرد صحابی کے صاحبزادہ، معروف تابعی ’’ میمون‘‘ کے ذریعے سے جو معلومات ملی ہیں وہ کافی مفید اور چشم گشا ہیں۔
رجال حدیث کی کتب میں میمون الکردی نامی تابعی کا نام آیا ہے۔ الحافظ ذھبی کی کتاب ’’میزان الاعتدال فی نقد الرجال‘‘ میں آتا ہے آپ کی کنیت ’’ابوبصیر‘‘ ہے جبکہ ایک اور تابعی میمون بن جابان ہیں جن کی کنیت ’’ابوالحکم‘‘ ہے۔
2۔ کرد وفد مدینۃ الرسول میں: جب اسلام کا نور جزیرہ نمائے عرب سے خارج نہیں ہوا تھا جزیرہ بوتان (جزیرہ ابن عمر جو ترکی کردستان میں واقع ہے) سے بعض لوگ تجارت کی نیت سے مدینہ النبی (ص) آئے۔ اس وفد نے مدینہ میں قبول اسلام کا اعلان کیا اور پھر اپنے علاقے کی جانب واپس ہوئے۔ چونکہ ان کا تعلق ’’ باجن‘‘ قبیلے سے تھا اس لیے ’’با جن کے تاجروں‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

کرد اسلامی فتوحات کے دور میں:

کْرد اسلام سے قبل فارس کے حکمرانوں کے زیر دست و رعیت تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے لگا تو مسلم فاتحین اور کردوں کے روابط استوار ہوئے۔ خاص کر جب مسلمانوں کا لشکر ’’قادسیہ‘‘ و’’نہاوند‘‘ میں ایرانی افواج کو شکست سے دوچار کرکے آگے بڑھ رہاتھا۔ اکثر کرد علاقے بشمول شہر اور بستی کے صلح سے فتح ہوئے، صرف بہت ہی کم علاقوں میں کردوں نے سخت مزاحمت کی مگر بالاخر انہیں سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سنہ 21 ہجری میں اکثر کرد علاقے اسلام کے حلقے میں داخل ہوچکے تھے۔ کردوں کی اکثریت اپنی مرضی سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مسلم کردوں نے بعد میں اسلامی فتوحات میں قابل ذکر اور نمایان کردار ادا کیا۔
کرد قوم میں اسلام کی حقیقی روح موجود تھی جس نے خلافت اسلامیہ کی فوجوں میں دستہ اول کا کام کیا۔ ان میں اعتقادی ومسلکی انحراف اور گمراہی نہیں آئی۔ بلکہ یہ لوگ روسیوں، بیزانطیوں اور ان کے ارمنی و جارجین اتحادیوں کے سامنے ہمیشہ سینہ سپر تھے اور اسلامی سرحدوں سے حفاظت کرتے تھے۔ شاندار تاریخ رکھنے والی کرد قوم کا قابل فخر کارنامہ صلیبیوں اور باطنیوں سے مقابلے کے دور میں’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ کی قیادت میں تو شہرت سے زیادہ معروف ہے۔
عباسیوں کے دور میں اسلامی خلافت سے دفاع کے لیے کردوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ جب عباسی خلافت کے زوال کا دور شروع ہوا اور کئی خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں، ایرانیوں اور بنی بویہ نے بغاوت کردی، اس وقت بھی (447۔ 334ھ۔ق) کردوں نے اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھا اور بغاوت کی راہ نہیں اپنائی، اگر وہ چاہتے تو دیگر باغی قومیتوں کی طرح بغداد پر چڑھائی کر سکتے تھے، لیکن اسلامی اتحاد کیساتھ اخلاص نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا، کسی اور جذبے نے نہیں۔

کرد علمائے اسلام اور ان کے خدمات:
اسلامی علوم وفنون میں کردوں نے ماضی میں اور حال میں بھی بڑی دلچسپی لی ہے۔
اسلامی تاریخ کے متعدد نامور علماء کا تعلق کردستان سے ہے جنہوں نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے لیے قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ آج تک مسلم امہ ان کی محنتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ذیل میں بعض ممتاز کرد علمائے کرام کے نام ملاحظہ ہو:
۱۔ معروف تابعی میمون بن مہران
۲۔ ابن اثیر، ’’الکامل فی التاریخ‘‘ کے مصنف
۳۔ ’’النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر‘‘ کے مصنف ابن الأثیر
۴۔ ’’وفیات الأعیان‘‘ کے مصنف ابن خلکان
۵۔ نحو کے ماہر ابن حاجب لالانی
۶۔ ابوحنیفہ الدینوری
۷۔ ابن قتیبہ الدینوری
۸۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ الحرانی
۹۔ ابن صالح شہر زوری
۱۰۔ بدیع الزمان ہمدانی۔

کردش حکومتیں اسلامی تاریخ کے ادوار میں:

کردوں نے متعدد امارتیں اور حکومتیں بنائیں۔ یہ حکومتیں عباسی اور عثمانی خلافت کی ذیلی ولایات تھیں۔ مشہور حکومتوں میں درج ذیل نام سر فہرست ہیں:
۱۔ بنی مسافر اور دیسم کی حکومت، آذربائیجان، شہروز، ہمدان، دینور، نہاوند، اور بمیان میں
۲۔ دوستک اور بنی مروان (489۔ 356 ھ۔ق) کی حکومت ترکی کے کردستان میں
۳۔ قراباغ، وادی آراس حکومت جنوبی قفقاز میں، بنو شداد کی حکومت جو چوتھی ہجری صدی کے وسط میں قائم ہوئی اور تاتاریوں کی آمد کے ساتھ ختم ہوئی۔
۴۔ ایوبی سلطنت جس کے بانی سلطان صلاح الدین ایوبی تھے۔ اس حکومت کے زیرنگین بلاد شام، موصل، ترکی کے مشرقی علاقے، یمن، مصر، لیبیا، ودیگر خطے تھے۔ 564 ھ۔ق سے 648 ھ۔ق یہ حکومت قائم رہی۔
۵۔ ٖضلوی اور ہزار اسبیہ کی حکومت جو 543 سے لیکر 827 ھ۔ق تک ایرانی کردستان کے علاقے لرستان میں قائم تھی۔

کرد قوم پرائے جنگوں کی قربانی:
جبری واختیاری حالات نے کردوں کو مشرق وسطی سے لیکر وسط ایشیا تک مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ دو بڑی طاقتوں (عثمانی خلافت اور صفوی ریاست) کے درمیان کردستان کی پہلی بار تقسیم کے بعد ان دو حکومتوں کے درمیان ہمیشہ جنگیں ہوتی رہیں۔1514ء کو ’’جالدیران‘‘ جھڑپ کے بعد متعدد جنگیں لڑی گئیں جو تین صدیوں تک جاری رہیں۔ کرد عوام ان لڑائیوں کے ایندھن بنے رہے اور ان کی سرزمین میدان جنگ! طرفین جلانے اور جلا وطن کرانے کی پالیسی پر گامزن رہے جس سے معصوم کرد بری طرح متاثر ہوئے۔
’’جالدیران‘‘ کے معرکے کے بعد سلطان سلیم نے کردوں کو اہم خانہ سمیت ’’انا طولیہ‘‘ کے وسط اور شمالی علاقوں اور انقرہ کے جنوب کی جانب جلاون کرنے کا عزم کیا۔ اسی طرح بعض خاندان بلغاریہ کی طرف جلا وطن کردیے گئے۔ صفویوں نے لاکھوں کردوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بیدخل کردیا۔1534ء اور 1535ء کے درمیان جب صفوی عثمانیون سے لڑائی کے بعد واپس ہو رہے تھے منظم انداز میں کردوں کے شہروں اور آبادیوں کو برباد کرکے چلے گئے، فصلوں، کاریزوں اور پانی کے کنووں کو تباہ کرنے سے بھی گزیر نہیں کیا۔ شاہ عباس اول نے کردوں کی بڑی تعداد کو آذربائیجان کی طرف دکھیل دیا پھر خراسان کی جانب تا کہ انہیں ترکمنستان کیخلاف استعمال کرے۔ اسی طرح بعض کرد قبائل افغانستان کے ’’ہندوکش‘‘ پہاڑوں اور ایران کے جنوب مشرقی علاقے کی جانب جلا وطن کردیے گیے جو ایرانی و پاکستانی بلوچستان میں آباد ہیں۔
کردستان کی دوسری تقسیم کے بعد جو ’’ سائیکس۔ پیکوٹ 1916ء‘‘ معاہدے کے نتیجے میں ممکن ہوئی کرد قوم مزید تتر بتر ہوگئی۔ ٹارچر، جبری جلاوطنی اور تشدد پہلے سے زیادہ تیز ہوگئے۔ چنانچہ ارمینیا، آذربائیجان اور جارجیا کے کردوں کو ’’اسٹالین‘‘ نے سابق سوویت یونین کے دور دراز ملکوں میں بکھیر دیا جہاں کر غیزستان وتاجکستان جیسی ریاستوں میں انہیں بسایا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران سات لاکھ کردوں کو ترکی سے روسی افواج نے جلا وطن کردیا جن کی نصف تعداد راستے ہی میں دم توڑگئی۔ اس کے علاوہ چار لاکھ کردی بولنے والے جنگ کے دوران ترکی میں قتل ہوگئے۔

آج کا کردستان:
سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد کردستان کا مستقبل مزید تاریک ہوگیا۔ عثمانی خلافت کے زیر اثر کردستان (1514ء) تین حصوں میں بٹ گیا؛ تاریخی کردستان کا سب سے بڑا حصہ ترکی کے ساتھ ملحق ہوا، اس کا کل رقبہ دو لاکھ تیس ہزار(230,000) مربع کلومیٹر ہے۔ دوسرا حصہ عراق کے حصے میں آگیا جس کا رقبہ ۸۰ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ سب سے چھوٹا حصہ شام Syria کے ساتھ ملحق ہوا۔ جبکہ ایرانی کردستان ’’جالدیران‘‘ معرکے کے بعد 1514ء سے ایران کے قبضے میں چلا آرہاہے۔ ایرانی کردستان کا کل رقبہ تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ کردی بولنے والوں کا خطہ برطانیا، ہالینڈ، بلجیم، سوئٹزرلینڈ اور ڈنمارک کے کل رقبہ سے بھی زیادہ ہے۔
کرد قوم ہمیشہ اپنے علاقوں میں امتیازی سلوک کا شکار رہی ہے، اسی وجہ سے سیکولراور کمیونسٹ عناصر کردوں کے حقوق سے دفاع کے نام پر آگے بڑھے خاص کر عراق وترکی میں۔ نتیجہ میں مسلم کرد اپنے علاقے میں کمزور ہوگئے اور منزوی کردیے گئے۔ ہر کوئی جب ’’کردستان‘‘ کا لفظ سنتا ہے تو اس کے ذہن میں سیکولر اور کمیونسٹ کردستان آتا ہے۔

ایران کے کرد:
ایران میں کردی بولنے والے ملک کے مغرب اور شمال مغرب میں آباد ہیں۔ سات کروڑ ایرانیوں میں نو فیصد کرد ہیں۔ چھ ملین سے زائد کرد زیادہ تر مغربی آذربائیجان، کردستان، کرمانشاہ، ایلام، ہمدان، لرستان اور شمالی خراسان میں رہتے ہیں۔ ان کی اکثریت اہل سنت والجماعت کے مسلک پر ہے۔
اگر چہ ایرانی آئین میں تمام قومیتوں کے تعلیمی، ثقافتی اور مذہبی معاملات کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے، لسانی ونسلی بنیاد پر تفریق کی نفی کی گئی ہے پھر بھی ایرانی کرد دیگر ایرانی سنی مسلمانوں کی طرح امتیازی سلوک کا شکار چلے آرہے ہیں۔ عہدوں اور اعلی مناصب کی تقسیم میں انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔

سنی آن لائن/ اردو