- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مولانا مرغوب الرحمن کا انتقال ایک بڑا سانحہ ہے، علماءکرام

marghoob-ur-rahmanکراچی(کراچی اپ ڈیٹس) دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مرغوب الرحمن اور شیخ القرآن مولانا ولی اللہ کابل گرامی کا انتقال امت مسلمہ کےلئے ایک بڑا سانحہ ہے۔ ان علماءکی دینی، ملی اور علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شیخ القرآن مولانا ولی اللہ کابل گرامی کے سیکورٹی فورسز کی حراست میں اچانک انتقال کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔

ان خیالات کا اظہار جمعیت علماءاسلام کراچی کے امیر قاری محمد عثمان، جنرل سیکریٹری مولانا اسلم غوری، جمعیت علماءاسلام سندھ کے رہنما مولانا عبدالکریم عابد، جامعہ الدراسات الاسلامیہ کے مدیر الشیخ یوسف طیبی، مولانا عبدالحق عثمانی، مولانا حماد اللہ شاہ، سابق ارکان صوبائی اسمبلی مولانا عمر صادق، حافظ محمد نعیم، مجلس علماءکراچی کے رہنما ڈاکٹر قاسم محمود اور دیگر نے جمعرات کو علماءکے انتقال پر اپنے تعزیتی بیانات میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا مرغوب الرحمن نے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور امت مسلمہ کے ایک عظیم عالم کی حیثیت سے عالم اسلام کےلئے عظیم خدمات سر انجام دی جبکہ انہوں نے دارالعلوم کو بھی اپنے دور میں علمی، تعمیراتی اور اصلاحاتی میدان میں ترقی کی طرف گامزن کیا۔ ان کی کی گئی تمام اصلاحات دینی اداروں کےلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے اپنی 100 سالہ زندگی اسلام کی نشر واشاعت اور دین کی خدمت میں صرف کی ۔ ان کے اچانک انتقال سے امت مسلمہ ایک عظیم عالم دین سے محروم ہوگئی۔ یہ امت کےلئے بڑا سانحہ ہے۔
انہوں نے شیخ القرآن مولانا ولی اللہ کابل گرامی کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ضعیف العمر عالم دین کو گزشتہ دو سالوں سے سیکورٹی فورسز نے بے گناہ حراست میں رکھا اور گزشتہ روز اچانک ان کے انتقال کی خبر دی گئی۔ مختلف رہنماﺅں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے انتقال کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے اور یہ بتایا جائے کہ 80 سالہ عالم دین کو کہیں یا کسی اور ذریعے سے شہید تو نہیں کیا۔ اس ضمن میں ان کے علاقے میں مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں۔
انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ علماءاور دینی طبقے کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں بند کی جائیں۔ اگر دینی طبقے کے خلاف ظالمانہ اقدامات بند نہیں کئے تو ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے۔ مولانا ولی اللہ کابل گرامی نے ہمیشہ دین کی سربلندی اور پاکستان کی بقاءکےلئے جدوجہد کی ہے۔ ایسے عالم دین کے ساتھ ناروا سلوک انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔