- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

‘حسین بن علی کاجہاد انصاف فراہمی کیلیے تھا، اقتدارکیلیے نہیں’

molana_12اس جمعے کے خطبے میں خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے قرآنی آیت: “وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ”، (اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لئے) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اﷲ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مددگار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مددگار ہے) کی تلاوت کے بعد دین کی خاطر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بعض قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: تلاوت شدہ آیت میں اللہ تعالی نے جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب ودعوت دی ہے۔ جہاد کا مصدر ’’جہد‘‘ ہے، یعنی اللہ کی راہ میں اپنی پوری طاقت بروئے کار لانا، چاہے جان سے یا مال کے ذریعے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد بالمال اور جہاد بالنفس دونوں پر عمل کرتے تھے۔ اسی وجہ سے آیت 9:20 کی رو سے صحابہ کرام کا شمار کامیاب وسربلند لوگوں میں ہوتاہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کی راہ میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جان نثار صحابی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت میں مشرکین مکہ سے جان بچا کر مدینہ کی جانب ہجرت کر گئے۔ حالانکہ اُن دنوں میں ہجرت کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر ہجرت کے دوران تین ایام غار ثور میں روپوش ہونا پڑا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے خالق کی راہ میں قربانی وجہاد کی ایسی داستانیں رقم کیں جو پوری انسانی تاریخ میں بے مثال ہیں۔
متعدد غزوات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثالی وقابل تقلید قربانیوں کے تفصیلی تذکرے کے بعد خطیب اہل سنت زاہدان نے موضوع کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا: برادران اسلام! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جان ومال سے سخت ترین ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی اور پوری بہادری سے اسلام کا دفاع کیا۔
حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی قربانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے مزید کہا: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پرورش اور نشوونما ایک بہت ہی مبارک گھرانے میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد علی بن ابیطالب کو ’’اسد اللہ‘‘ اللہ کا شیر کا تمغہ حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما جنت میں خواتین کی سردار وسیدہ ہیں۔ جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نانا سرور کونین خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین اور اس کے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کو جنت کے نوجوانوں کے سردار کہہ دیا۔ حضرات حسنین ودیگر اہل بیت نے بھی اسلام سے دفاع کی خاطر بے شمار قربانیاں دیں۔
جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین بن گئے تو مسلمانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا تھا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے زیر نگین متعدد اسلامی ولایات وممالک تھے اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ مصلحت کی خاطر خلافت سے دستبردار ہوکر یہ منصب دیگر جلیل القدر صحابی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں سچ ثابت ہوئی جس میں آتاہے: ’’انّ ابنی ھذا سید ولعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین‘‘
(میرا یہ بیٹا (حضرت حسن) سردار وسرور ہے اور امید ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے دو بڑے مسلمان گروہوں کے درمیان صلح لائے گا۔)
جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہوئے تو حضرات حسنین کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد یزید خلیفہ بن گیا۔ لیکن یزید امارت کے لائق نہیں تھا۔ اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے قیام کا عزم کیا، خاص طور پر جب کوفہ کے بعض سرداروں نے وعدہ کیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کریں گے۔ کوفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالحکومت تھا۔ ان کے وعدے نے حضرت حسین کو مزید پر عزم کردیا۔
لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے کوفہ پہنچنے سے قبل یزید کا نمایندہ کوفہ پر قبضہ جما چکا تھا، اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نمایندے کو شہید کردیا اور اہل کوفہ سے یزید کے حق میں بیعت لے لیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب کوفہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا جن لوگوں نے آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اب یزید کے لشکر میں شامل ہوچکے ہیں، چنانچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا مدینہ واپس چلے جائیں۔ لیکن ان غداروں نے آپ کو اجازت نہیں دی اور کہا کہ آپ کو اسیر کرکے یزید کے پاس لیجائیں گے۔ مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ’’ھیھات منا الذلّۃ ‘‘ کانعرہ لگا کر اس ذلت سے انکار کیا، آپ نے گرفتاری دینے سے انکارکیا۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھائی: تعجب کی بات ہے جو لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اقتدا میں نماز پڑھتے تھے، نماز کے بعد غداری کرکے آپ رضی اللہ عنہ کے مد مقابل کھڑے ہوئے، یہی لوگ تھے جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو محاصرہ کیا تھا اور بالآخر آپ کو شہادت کے اعلی مقام پر فائز کرکے خود رسوا ہوئے۔ غدار وفاسق لوگوں نے کربلا کے مقام پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے جان نثاروں کو شہید کردیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: جو لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں آئے ان کا مقصد صرف اقتدار تھا، لیکن وہ ہرگز اپنا یہ مقصد حاصل نہ کرسکے اور ذلت و رسوائی کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے، بدنامی ان کا ہمیشہ کے لیے مقدر بن گئی۔ جو حق کیخلاف نکلے اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قیام کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: قیام حضرت حسین رضی اللہ عنہ اقتدار اور جاہ ومقام کے لیے نہیں تھا، بلکہ آپ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شان اس بات سے بہت زیادہ اونچی تھی کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے تلوار نکالے۔
ممتاز سنی عالم دین نے واقعہ کربلا کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے کہا جو سبق ہمیں سانحہ کربلا سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ بعض پست فطرت لوگ اقتدار اور کرسی کی خاطر خطرناک ترین جرائم کے ارتکاب سے بھی گزیر نہیں کرتے۔ کچھ لوگوں نے اہل بیت اور امت کے برگزیدہ لوگوں کا سر صرف اس لیے تن سے جدا کیا تا کہ مقام وجاہ حاصل کریں، لیکن رسوائی کے سوا کوئی اورچیز انہیں ہاتھ نہیں آئی۔ آج تمام مسلمان ایسے لوگوں سے بیزار ہیں جو اہل بیت کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اس واقعے سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ نیک وصالح لوگ ہرگز ذلت وخواری برداشت نہین کرتے۔ باطل کے سامنے نہین جھکتے۔ حق کو کامیاب بنانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔
مسلمانوں کے نزدیک اہل بیت نبوی کی عزت ومقام کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا سارے مسلمان، شیعہ وسنی، امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیحد محبت کرتے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ سمیت تمام اہل بیت کی محبت اہل سنت کے ایمان کا جزو ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ صرف محبت کافی نہیں بلکہ صحابہ واہل بیت کی سیرت وکردار کی پیروی بھی ضروری ہے، حق کو مان کر اس کی راہ میں قربانی دینی چاہیے۔
آخر میں خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے شیعہ کی مذہبی تقریبات کے پر امن انعقاد پر زور دیتے ہوئے کہا: اہل تشیع حضرات اپنے مسلک وفقہ کے مطابق مذہبی تقریب منعقد کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارا مطالبہ شیعہ حضرات سے یہ ہے کہ ان کی تقاریب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سمیت اہل سنت کے دیگر بزرگوں اور عقائد کی شان میں گستاخی نہیں ہونی چاہیے۔ اہل سنت کی مقدسات کی توہین سے مسلم دشمن عناصر کو فرقہ واریت کو ہوا دینے کا بہانہ ملتا ہے جو سب کے لیے خطرناک ہے۔ نیز مولانا عبدالحمید حاضرین کو تاسوعا و عاشورا (نو اور دس محرم) کو روزہ رکھنے کی ترغیب دی۔