- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ملا منصور کا معمہ؟

mollah-omarرپورٹ(بی بی سی) افغانستان میں امریکی اور افغان حکام کے نیٹو کے تعاون سے طالبان سے کئی ماہ تک مذاکرات چلتے رہے اور ان مذاکرات سے اس لیے کچھ امید بھی پیدا ہو چکی تھی کیونکہ کہ مذاکرات کی میز کی دوسری طرف طالبان کے ایک سرکردہ رہنما ملا اختر محمد منصور موجود تھے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ اس شخص سے آخری ملاقات کے بعد سے افغان اور امریکی حکام اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ یہ شخص کون ہے۔ کچھ حکام کا خیال تھا کہ یہ شخص پیسے حاصل کرنے کے لیے فراڈ کر رہا ہے۔ چند حکام کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان کی طرف سے بھیجا گیا کوئی ایجنٹ ہو۔
ایک امریکی اہلکار نے جو مذاکرات کے عمل سے وابستہ تھے کہا کہ طالبان امریکیوں اور ہماری خفیہ ایجنسیوں سے زیادہ چلاک ہیں اور وہ ہمارے ساتھ کھیل کر رہے ہیں۔
اخبار کے مطابق کچھ لوگوں کو شک ہے کہ طالبان کے اس جعلی رہنما کو ہو سکتا ہے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے بھیجا ہو کیوں کہ آئی ایس آئی میں شامل عناصر نے افغانستان میں ایک عرصے سے دوہرا کھیل کھیلا ہے۔ ایک طرف وہ امریکی حکام کو یہ یقین دلاتے رہے ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ شدت پسندوں کو امداد بھی مہیا کرتے رہے ہیں۔
طالبان کی قیادت کا کھلے عام یہی کہنا ہے کہ وہ کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں کر رہے۔ اپنے کارکنوں کے نام ملا عمر نے ایک حالیہ بیان میں یہی کہا تھا کہ کسی سطح پر کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’چلاک دشمن جو ان کے ملک پر قابض ہے اپنی دوغلی پالیسی کے تحت ایک طرف تو فوجی کارروائیوں میں توسیع کر رہا ہے اور دوسری طرف مذاکرات کی افواہیں پھیلا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔‘
ملا عمر کے ان بیانات کے باوجود طالبان کی اعلیٰ قیادت کے کچھ ارکان کی طرف سے افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے اشارے ملے تھے۔
اس سال جنوری میں ملا عبد الغنی برادر کو جو اس وقت ملا عمر کے نائب تھے امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی ایک مشترکہ کارروائی میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ گو کہ اس مشترکہ کارروائی کو امریکہ اور پاکستان کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی مثال بنا کر پیش کیا گیا تھا لیکن بعد میں کہا گیا کہ پاکستان حکام نے ملا برادر کو اس لیے گرفتار کروایا کیوں کہ وہ آئی ایس آئی کی اجازت کے بغیر افغان حکام سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔
افغان حکام نے ان اطلاعات کی تصدیق کی تھی۔
افغان حکام کو اب بھی یہ امید ہے کہ وہ شخص ملا منصور کا کوئی نمائندہ ضرور تھا اور وہ جلد ہی بات چیت کو آگے بڑھانے آئے گا۔
ایک اور افغان اہلکار نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے اخبار کو بتایا کہ اس شخص کے بارے میں شکوک موجود ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ یہی ملا منصور ہو۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں شامل حکومتی ارکان اس شخص پر جو اپنے آپ کو ملا منصور کہتا تھا زور ڈالتے رہے کہ وہ دوسرے طالبان رہنماوں کو اپنے ساتھ لائے جن کے بارے میں وثوق سے کہا جائے کہ وہ طالبان قیادت کا حصہ ہیں۔
یہ ملاقاتیں ایک افغان نے ہی کروائیں تھیں جس کے افغان حکومت اور طالبان دونوں سے تعلقات تھے۔
اپنے آپ کو ملا منصور ظاہر کرنے والے شخص نے حیران کن طور پر زیادہ سخت شرائط پیش نہیں کی تھیں۔ اس کی طرف سے پیش کردہ شرائط میں طالبان رہنماوں کی بحفاظت وطن واپسی کی یقین دہانی، طالبان فوجیوں کے لیے نوکریاں اور گرفتار شدہ طالبان کی رہائی جیسے مطالبات شامل تھے۔
اس شخص نے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جیسا کہ طالبان ماضی میں کرتے رہے ہیں۔
طالبان کے ایک سابق رکن سید امیر محمد آغا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں اس بہروپیے کی کہانی کا کوئی علم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان قیادت نے مذاکرات کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی طرح کا کوئی بھی شخص آ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ طالب ہے اور اس سے بات چیت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔
انہوں نے کہا کہ جب کبھی بھی ان کا طالبان سے رابطہ ہوتا ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ لڑتے رہیں گے اور وہ لڑائی سے تھکے نہیں ہیں۔