- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اوباما انخلاء کے نظام الاوقات پر پرعزم

obamaلسبن(بى بى سى) صدر براک اوباما نے یقین ظاہر کیا ہے کہ امریکہ آئندہ سال جولائی تک افغانستان سے فوجوں کا انخلاء شروع کرنے کے قابِل ہو سکے گا۔
پرتگال کے درالحکومت لسبن میں نیٹو کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں روس کے ساتھ تخفیفِ اسلحہ کے نئے معاہدے کے سلسلے میں اتحادی ملکوں سے بہت حمایت حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس کے ہمسایہ ملکوں نے بھی، جنہیں اس کے ارادوں سے سب سے زیادہ تشویش ہونا چاہیے تھی، انہیں بتایا ہے کہ وہ سٹارٹ معاہدے کی توثیق ہونے کی صورت میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھیں گے۔
صدر اوباما نے سٹارٹ معاہدے کی توثیق میں رکاوٹ بننے والے امریکی سینیٹ کے ریپبلکن ارکان پر الزام لگایا کہ وہ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے اصول سے دور ہو رہے ہیں۔
اس سے پہلے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں افغانستان سے انخلاء کی نئی حکمت عملی کی منظوری دی گئی۔ منصوبے کے تحت اگلے سال سے نیٹو کی افواج سکیورٹی کا کنٹرول افغانستان کے حوالے کرنا شروع کر دیں گی۔
منصوبے کے مطابق سن 2014 کے آخر تک نیٹو کی افواج افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیں گی۔ تاہم نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ سکیورٹی کی ذمہ داریاں اس وقت تک افغانستان کے سکیورٹی کے اداروں کو منتقل نہیں ہوں گی جب تک وہ پوری طرح اس کے قابل نہیں ہو جاتے۔
سیکرٹری جنرل راسموسن نے کہا کہ نیٹو اس وقت تک افغانستان میں رہے گا جب تک افغانستان کے حالات ٹھیک ہو نہیں جاتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان نیٹو کے جانے کے انتظار میں ہیں تو وہ بھول جائیں۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے نیٹو کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ افغانستان کے لوگوں کی زندگیوں میں بہت تبدیلیاں لے کر آئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے فوجی کارروائیوں کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
نیٹو کے رکن ممالک کی سربراہی کانفرنس کے پہلے دن تمام نیٹو ممالک کو میزائل شکن دفاعی نظام مہیا کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ یہ میزائل شکن دفاعی نظام یورپ اور شمالی امریکہ میں نصب کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ نیٹو نے روس اور امریکہ کے درمیان جوہری اسلحے کے ذخائر میں کمی سے متعلق معاہدے کی حمایت کی ہے۔ اس معاہدے کی امریکی سینیٹ سے توثیق ہونا باقی ہے۔
اس وقت نیٹو کی ایساف فوج کے ایک لاکھ تیس ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق امریکہ سے ہے۔ امریکہ کے صدر براک اوباما کہہ چکے ہیں کہ ایساف کا مشن ’ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے‘ اور یہ کہ افغان سکیورٹی فورسز کو ملک کے سکیورٹی انتظامات منتقل کرنے کا ہدف فی الحال سنہ 2014 ہی ہے۔
نیٹو کے کچھ ارکان نے یہ خدشات ظاہر کیا تھا کہ سنہ 2014 تک افغانستان ممکنہ طور پر اپنی سکیورٹی سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہوگا تاہم تنظیم کے سیکرٹری جنرل آندریس راسموسین کے مطابق یہ ’ایک حقیقی ہدف ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2015 اور اس کے بعد ایساف فوجی افغانستان میں سرگرم تو ہوں گے تاہم ان کا کردار زیادہ تر افغان فوج کی تربیت میں ہوگا۔