- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’’ترکمن صحرا‘‘ کے علما ومصلحین

torkmanترکمن صحرا ایران کے شمال مشرق میں واقع ایک وسیع خطے کا نام ہے جو صوبہ گلستان اور ’’شمالی خراسان‘‘ کے بعض حصے پر مشتمل ہے۔ ’’ترکمن صحرا‘‘ کا آغاز ’’بندر ترکمن‘‘ سے ہوتا ہے جو ’’بجنورد‘‘ کے قریب واقع ’’راز‘‘ تک چارسو کلومیٹرتک پهیلا ہوا علاقہ ہے۔ شمال کی جانب سے ترکمن صحرا کی سرحدیں ترکمنستان سے لگی ہوئی ہیں جبکہ اس کے مغرب میں بحیرہ قزوین واقع ہے۔ ترکمن صحرا میں متعدد چھوٹے بڑے شہر آتے ہیں جیسا کہ آق قلا، گنبد کاووس، کلالہ، گرگان، بندر ترکمن، مراوہ تپہ، سیمین شہر، گمش تپہ، نگین شہر ودیگر علاقے۔ کئی صدیوں سے ترکمان قوم اس خطے میں آباد ہے۔ ترکمن صحرا میں اکثر لوگ ترکمانی بولتے ہیں جبکہ بلوچی اور فارسی بولنے والے بھی یہاں آباد ہیں۔ اس معروف خطے کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے جو مسلک اہل سنت والجماعت (حنفی) کے پیروکار ہیں۔

دیگر مسلم علاقوں کی طرح ترکمن صحرا سے بھی متعدد ممتاز علمی شخصیات نے میدان علم وعمل میں آکر اپنی گراں قدر خدمات سے انسانیت کی خدمت کی۔ میدان اصلاح ودعوت اور تقوا وعلم کے شہسواروں میں جو معاصر تاریخ میں بے مثال سمجھے جاتے ہیں شیخ عبدالقادر داغستانی اور علامہ عبدالوہاب داغستانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ بنیادی طور پر ان علمائے کرام کا تعلق ’’داغستان‘‘ سے تھا جیسا کہ ان کے اسم گرامی سے واضح ہے۔
علامہ عبدالقادر داغستانی نے اپنے آبائی علاقے میں وقت کے نامور اور ممتاز علمائے کرام اور اساتذہ سے دینی تعلیم حاصل کی۔ اپنی بے پناہ ذکاوت اور ذہانت کی وجہ سے آپ بیس سال کے عمر میں دینی علوم کے مانے ہوئے ماہر بن چکے تھے۔
اسی دوران معروف مجاہد اور مصلح شیخ شامل کی جہادی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک نے شیخ عبدالقادر کی روح میں کمیونسٹ مخالف جذبات دو چند کردیا۔ آپ نے جابر وظالم حکام کیخلاف جہادی تحریک میں براہ راست حصہ لیکر داغستان میں جہاد کا آغاز کیا۔ روسی کمیونسٹوں کی اسلام دشمنی معروف ہے چنانچہ انہوں نے علمائے کرام کے قتل عام کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس وجہ سے شیخ عبدالقادر اپنے دو بھائیوں ابراہیم اور محمد سمیت ترک وطن پر مجبور ہوئے جنہوں نے ’’ترکمن صحرا‘‘ کو اپنا وطن بنایا۔ علامہ داغستانی نے بڑی مشقت اور دشواریوں کو سامنے کرتے ہوئے 1348ھ۔ق (1930ء) کو ایران کے علاقے ترکمن صحرا پہنچ گئے۔
تھوڑے ہی عرصے کے بعد شیخ عبدالقادر کے دیرینہ ساتھی جو دعوت واصلاح کے میدان میں ان کے ساتھ ساتھ سرگرم رہ چکے تھے ’’ترکمن صحرا‘‘ کی جانب کوچ کر آئے۔ شیخ عبدالوہاب داغستانی نے اپنی اصلاحی وتربیتی سرگرمیوں کو یہاں تیز کرتے ہوئے بدعات وخرافات اور اخلاقی برائیوں کے خاتمے کے لیے کمر بستہ ہوئے۔ ان کی انتھک محنتوں کی برکت سے ترکمن صحرا ایمان وعلم اور معارف دینیہ کے انوار سے تابندہ ہوگیا۔ شیخ عبدالقادر اور عبدالوہاب داغستانی نے اپنی علمی سرگرمیوں اور اصلاحی ذمہ داریوں کو جاری رکھا یہاں تک کہ شاہ ایران کے باپ ’’رضا خان‘‘ کی حکومت نے انہیں ’’منع حجاب‘‘ آرڈیننس کی مخالفت کے الزام میں دوسری ہجرت پر مجبور کردیا۔ اس مرتبہ مہاجرین کے اس گروہ نے عراقی کردستان کا رخ کیا۔
دوران ہجرت ان مشائخ نے سقز، بغداد، سلیمانیہ، حلبچہ اور کرکوک شہروں میں قیام فرمایا جہاں وقت کے ممتاز علمائے کرام جیساکہ ملا عبدالعظیم مجتہدی اور شیخ علاء الدین کی صحبت سے انہین استفادہ کا موقع ملا۔ اس مجالست سے داغستانی مشائخ کی اسلامی علوم ومعارف میں مہارت پہلے سے بڑھ گئی۔ ایک جانب سے کسب علم وفیض کے لیے مسلسل جد وجہد اور دوسری طرف سے اہل خانہ کی ضروریات کو پوری کرکے حلال روزی کی تلاش نے انہیں بہت باتجربہ بنادیا۔ ان تجربوں کے حصول انہیں کافی مہنگا پڑا جہاں سخت مشکلات اور دشواریوں سے مقابلہ کرنا ان کی مجبوری بن گئی۔ آٹھ برس اسی طرح گزرتا گیا یہاں تک کہ ایران کے سیاسی حالات میں تبدیلی آئی اور ’’رضا خان‘‘ جلا وطن ہوکر بقیہ زندگی اسی طرح گزارنے پر مجبور ہوا۔ علامہ عبدالوہاب اور عبدالقادر داغستانی نے آٹھ سال کے تجربوں اور ماحصل کے بعد دوبارہ ترکمن صحرا کا رخ کیا۔ ہجرت کے شدائد نے انہیں مزید پختہ بنایا تھا۔ چناچنہ انہوں نے پہلے سے زیادہ محنت اور اخلاص کے ساتھ اپنی دعوتی وتربیتی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا۔
داغستانی علماء کی فقاہت وبزرگی کی خبر پورے خطے میں پھیل گئی اور علم ومعرفت کے پیاسے جوق در جوق اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے ان کے پاس حصول علم کیلیے آتے رہے، تشنگانِ معرفت و ایمان ان ممتازترین علمائے کرام کے سامنے زانوئے تلمذ لگائے بغیر نہ رہ سکے۔ شیخ عبدالقادر اور عبدالوہاب کی محنتوں کے نتیجے میں یہاں دینی مدارس کی تعداد157 تک پہنچ گئی جن میں 4250 طلبہ علم کے سرچشموں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ آج اکثر ترکمان علماء ومشائخ اپنی علمی ترقی وپوزیشن کو انہی حضرات کے مرہونِ منت سمجھتے ہیں جو ان کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد ہیں۔
علامہ عبدالقادر کی وفات 1961 میں ہوئی جب ان کی عمر 63 برس تھی جبکہ شیخ عبدالوہاب 91 سال با برکت عمر پانے کے بعد 1993ء میں اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالی ان دونوں کی مکمل مغفرت فرما کر درجات بلند فرمائے۔ آمین