- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’صحابہ کرام کی قربانیاں نہ ہوتیں آج ہم بھی مسلمان نہیں تھے‘

molana_11جمعہ رفتہ کے خطبے کا آغاز سورۃ العنکبوت کی بعض آیات کی تلاوت سے کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا بہت سارے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں اس دنیا کی زندگی عیش وعشرت اور تفریح کے لیے ہے، کچھ کہانے اور خرچ کرنے کی جگہ ہے اور کچھ نہیں۔
حالانکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے میں نے اس دنیا کو اپنی بندوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے بنائی ہے۔

اللہ تعالی بعض کو سختی وتنگی اور بعض کو خوشی وفراخی کے ذریعے آزمائش کرتا ہے۔ اگر کسی کو اللہ تعالی مال ودولت سے نوازے تو یہ اس کا امتحان ہوگا، اس سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی کو عہدہ ومقام عطا کرے۔ خالق کائنات بندوں کو دولت، ثروت، مقام، عہدہ اور خوشحالی دیکر پھر ان کی کارکردگی دیکھتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی تنگی ومشکلات، قحط سالیوں اور تلخیوں کے ذریعے بھی اپنے بندوں کو آزمائشی فرماتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالی کو ہر آزمائش سے پہلے معلوم ہے کہ بندوں کا رویہ کیا ہوگا، صرف اس امتحان کے اظہار اور دیگر لوگوں کو دکھانے کے لیے اللہ تعالی ہمیں آزمائشوں میں مبتلا فرماتا ہے۔ بھوک اور افلاس سے زیادہ سخت امتحان شکم سیری اور دولت کا ہے۔ تجربہ سے ثابت ہوا ہے آدمی بھوک برداشت کرسکتا ہے مگر شکم پْری کو نہیں! جس کو اللہ تعالی دولت دیتا ہے پھر یہ دیکھتا ہے کہ کیا میرا بندہ یہ ساری دولت اپنا سمجھ کر بخل کرتا ہے یا نادار لوگوں کی بھی مدد کرتا ہے؟ زکات دیتا ہے یا نہیں؟ مساجد ومدارس سے تعاون کرتا ہے یا نہیں؟
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا یہ انسان کی طبیعت وعادت ہے کہ عام طور پر جب اسے کوئی دولت اور جاہ و مقام ملتی ہے تو وہ خود کو بے نیاز محسوس کرکے بغاوت کی راہ اپنا تا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’ان الانسان لیطغی، أن راہ استغنیٰ‘‘، جب انسان خود کو مستغنی وغیر حاجتمند محسوس کرتا ہے تو بغاوت اور طغیان پر اْتر آتا ہے۔ جب انسان ’عدم‘ سے ’وجود‘ میں آتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا، حتی کہ پوشاک بھی نہیں۔ پھر اللہ تعالی اس کو سب کچھ دیکر آزمائش کرتا ہے کہ کیا یہ بندہ شکر گزار ہوگا یا اپنی حقیقت اور ماضی بھول جائے گا۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے خطیب اہل سنت نے مزید کہا فراوانی اور خوشحالی کے وقت اللہ تعالی ہم سے شْکر کی توقع رکھتا ہے، مصیبت اور سختی کے ایام میں صبر واستقامت مطلوب ہے۔ قرآن پاک نے متعدد مقامات پر ایسے تاریخی حقائق و واقعات ہمارے سامنے رکھا ہے جن سے ہمیں سبق لینا چاہیے۔ انبیاء علیہم السلام خاص کر خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کن کن مصائب ومشکلات کو برداشت کیا۔ جزیرہ نمائے عرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قربانیوں پر گواہ ہے۔ بلاشبہ آج اگر ہمیں اسلام کی نعمت حاصل ہے تو یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ اپنی دولت، مقام اور جان سے نہ گزرتے، ہر میدان میں استقامت سے کام نہ لیتے تو آج ہم بھی مسلمان نہ ہوتے۔
انہوں نے تاکید کی اسی صبر واستقامت اور قربانیوں کی برکت سے اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عظیم مقام عطا فرمایا اور قرآن پاک میں ان سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا۔ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر آزمائش کے وقت بے صبری کرتا ہے، وہ جھوٹا آدمی ہے۔ جو خدا کے لیے ایک چھوٹی مشکل برداشت نہیں کر سکتا وہ کیسے اسلام کا دعوا کرتا ہے۔ اس دنیا میں صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

’اہل سنت پر الزام تراشی کا مقصد حکام اور شیعہ عوام کو اکساناہے‘

جامع مسجد مکی کی تعمیرِنو ہمارے ہی عوام کے پیسوں سے ہورہی ہے، بعض عناصر فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلیے ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ منصوبہ بعض عرب مسلم ممالک کے مالی تعاون سے آگے بڑھ رہاہے۔ یہ باتیں خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے کہی۔
جامع مسجد مکی میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کی اللہ کے فضل و کرم سے جامع مسجد مکی کے تعمیرنو پروگرام کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب گامزن ہے، جنہوں نے ابھی تک اس کارخیر میں حصہ نہیں لیا ہے اب بھی فرصت ہے کہ مسجد کی تعمیر میں حصہ لیکر اپنی آخرت سنواریں۔ تعمیرنو پروگرام کے اختتام کے بعد نمازی سخت سردی یا گرمی میں سڑکوں پر نماز پڑھنے پر مجبور نہیں ہوں گے۔
ممتاز سنی اسکالر نے مزید کہا جو افراد اور گروہ اہل سنت ایران پر الزام تراشی سے باز نہیں آتے اور ہم پردوسروں سے تعاون لینے کے الزام لگار کر اپنے خبث باطن کا اظہار کررہے ہیں، دراصل ان کا خدا کی نصرت و مدد پرایمان نہیں ہے اور یہ بیمار ذہن لوگ ہیں۔ ایسی افواہوں کی ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہے۔ عوام بھی ان افواہوں کی حقیقت سے آگاہ ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا ایسا لگتاہے بعض شیعہ انتہاپسند عناصر جب تک اہل سنت برادری پر الزام نہ لگائیں انہیں آرام اور چین نہیں آتا۔ ان متعصب عناصر کو معلوم نہیں ہم کس طرح خون جگر کھاکر پیسے حاصل کرتے ہیں۔ ہم لوگوں کے صدقات وخیرات اور مالداروں کے قرضے سے مسجد کی تعمیر کا کام آگے بڑھاتے ہیں۔ عرب ممالک سے مالی تعاون لینے کے الزام لگانے والوں کا مقصد ایرانی حکام اور شیعہ عوام کو ہمارے خلاف اکساناہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا زاہدان کی آٹھ لاکھ آبادی کی نصف سے زائد تعداد اہل سبت پر مشتمل ہے، یہ عوام اپنی مسجد کی تعمیر کیلیے کافی ہیں، نیز شیعہ مسلمانوں سے امید ہے ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے جس طرح اس سے قبل اہل سنت نے اہل تشیع کی جامع مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مالی تعاون سے دریغ نہیں کیا۔ سنیوں نے اس وقت ہمارے ہی کہنے پر ’’شیعہ مسجد‘‘ کی تعمیرمیں حصہ لیا۔