- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

انتہاپسند وائیلڈرز کو اسلام مخالف بیانات پر برّی کرنے کا مطالبہ

warlterzہیگ(العربیہ۔نیٹ،ایجنسیاں) نیدرلینڈز کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند رکن پارلیمنٹ گیرٹ وائیلڈرز کے خلاف مسلم مخالف تعصب اور نفرت انگیز جذبات ابھارنے کے مقدمے کی سماعت کے موقع پراسیکیوٹرز نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ انہیں مقدمے سے بری کر دیا جائے کیونکہ ان کے بہ قول کسی مذہب کے خلاف بات کرنے کی اجازت ہے۔

متنازعہ ڈچ سیاستدان کو اسلام کو فاشسٹ مذہب قرار دینے اور مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید کا جرمن کے مرد آہن ہٹلر کی کتاب سے موازنہ کرنے کے الزام میں مقدمے پر ایک سال جیل یا سات ہزار چھے سو یورو جرمانے کی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔ان کی اسلام اور مسلمان مخالف پانچ تقریروں پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
سینتالیس سالہ وائیلڈرز کی ایک وکیل برجیت وان روئیسل نے ایمسٹرڈیم کی ڈسٹرکٹ عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”کسی مذہب پر تنقید کی اجازت ہے۔ہم اپنے موکل کی فرد جرم میں لگائے گئے تمام پانچ الزامات سے بریت کی درخواست کرتے ہیں”۔
اس وکیلانی نے کہا کہ”جب وائیلڈرز نے قرآن مجید پر پابندی لگانے کی بات کی تھی تو اس سے بہت سے مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی ہو گی۔ لیکن اس گروپ کے احساسات اس کیس کے حقائق کا تعین کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے”۔
گیرٹ وائیلڈرز کی جماعت جمعرات کو تشکیل پائی دائیں بازو کی نئی حکومت میں شامل ہیں۔ واضح رہے کہ وائیلڈرز نیدرلینڈز کی ڈچ فریڈم پارٹی پی وی وی کے سربراہ ہیں اور اس جماعت نے جون میں منعقدہ عام انتخابات میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی ایک سو پچاس میں سے چوبیس نشستیں حاصل کی تھیں۔
ان پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیان بازی پر مقدمے کی گذشتہ پیر سے سماعت کی جا رہی ہے۔ وائیلڈر کی وکیل کا کہنا ہے کہ ”یہ آزادی اظہار کا معاملہ ہے اور ان کا موکل اس بات میں یقین رکھتا ہے کہ نیدرلینڈز میں ہر کسی کو وہ کچھ کہنے کی آزادی ہونی چاہیے، جو وہ کہنا چاہتا ہے”۔
گیرٹ وائیلڈرز کے خلاف پانچ الزامات پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے جن میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی حملہ،ان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے، مسلمانوں اور غیر ملکی تارکین وطن خاص طور پر مراکشی باشندوں کے خلاف تعصب پھیلانے کے الزامات پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
اس انتہا پسند رکن پارلیمان کوقتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد حکومت کی جانب سے چوبیس گھنٹے کے لیے سکیورٹی مہیا کی گئی ہے۔ وہ نیدرلینڈز میں اسلام کو پھیلنے سے روکنے، مسلم تارکین وطن کی آمد اور نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی اور مسلم خواتین کے حجاب اوڑھنے پر ٹیکس لگانے کے لیے مذموم مہم چلا رہے ہیں۔
ایمسٹرڈیم کی ڈسٹرکٹ کورٹ گیرٹ وائیلڈرز کے سال 2006ء سے 2008ء تک اسلام مخالف بیانات کے حوالے سے شہادتوں کو سنے گی جس کے بعد پراسیکیوٹر انہیں سزا دینے یا بری کرنے کی درخواست کریں گے۔عدالت کی جانب سے فراہم کردہ پروگرام کے مطابق وائیلڈرز 19 اکتوبر کو قصور وار ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بیان دیں گے اور عدالت کے جج 4 نومبر کو اپنا فیصلہ سنائیں گے۔
گیرٹ وائیلڈرز نے اسلام اور قرآن کی توہین پرمبنی سترہ منٹ کی فلم ”فتنہ” بنائی تھی۔اس اشتعال انگیز اور توہین آمیز فلم میں اس نے دہشت گردی کے حملوں کا تعلق قرآن سے جوڑا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون نے فلم کو اسلام مخالف اور اسے اسلام پرحملہ قرار دیا تھا۔”فتنہ” کو نیدرلینڈز کے سینماٶں میں دکھانے پر افغانستان، انڈونیشیا، ایران اور پاکستان سمیت مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے تھے۔
ایمسٹرڈیم کی ایک اپیلز کورٹ نے جنوری 2009ء میں لوگوں کے شدید احتجاج کے بعد پراسیکیوٹرز کو انتہا پسند گیرٹ وائیلڈرز پر مقدمہ چلانے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں قراردیا تھا کہ ”گیرٹ نے مسلم دینی شعارکی توہین کے علاوہ مسلمانوں کی بھی توہین کی ہے”.عدالت کا کہنا تھا کہ ایک جمہوری نظام میں نفرت انگیزتقریرکو بہت خطرناک سمجھا جانا چاہیے اورعوامی مفاد میں ایک واضح لکیرکھینچی جانی چاہیے”۔
اس عدالتی حکم کے بعد ایمسٹرڈیم میں پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا تھا کہ اس کے پاس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی اختیار نہیں اور نفرت انگیزتقریر کے تحت الزامات پرفوری طور پر تحقیقات شروع کی جائے گی۔
2008ء میں ہالینڈ کے پبلک پراسیکیوٹر نے چھے ماہ کی تحقیقات کے بعد وائیلڈرز کے خلاف اس بنیاد پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنی فلم فتنہ اور ”والکسکرانت” اخبار کو انٹرویو کے دوران ایسا کوئی ریمارکس نہیں دیا تھا جس کی بنیاد پران کے خلاف کوئی دفعہ لگائی جاسکے۔
لیکن ایمسٹرڈیم کی اپیلز کورٹ نے اپنے مذکورہ فیصلے میں قراردیا تھا کہ سیاستدانوں پرخصوصی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور انہیں ایسے بیانات کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس سے عوام میں نفرت اورغم وغصہ پھیلے۔اس بنیاد پرعدالت نے استغاثہ کو وائیلڈرز کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم دیا تھا۔