- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مذاکرات پر سابقہ پالیسی برقرار ہے:طالبان

taliban_2كابل(بى بى سى) افغان طالبان نے کہا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور افغان حکومت کی جانب سے سابق مجاہدین پر مشتمل صلح کمیشن بنانے پر ردعمل باضابطہ طور پر مشورے کے بعد جاری کیا جائےگا۔

افغان صدر حامد کرزئی نے طالبان سے بات چیت کے ایک امن کونسل بنانے کا اعلان کیا ہے جس کے اراکین کے ناموں کا اعلان عیدالفطر کے بعد ہوگا۔
اس سال جون میں کابل میں امن جرگہ میں طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے صدر حامد کرزئی کی تجویز کی حمایت کی تھی اور امن کونسل کا اعلان جرگہ کے فیصلوں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ جرگہ نے حامد کرزئی کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے بارے میں فیصلے کا اختیار دے دیا تھا۔
طالبان نے جون میں کابل میں ہونے والے جرگہ کی جانب سے بات چیت کی تجویز مسترد کر دی تھی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو بی بی سی کے طاہر خان کو بتایا کہ بات چیت سے متعلق طالبان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ جب تک غیر ملکی افواج افغانستان میں موجود ہیں تو طالبان کسی قسم کی بات چیت کا حصہ نہیں ہوں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ امن کونسل کا فیصلہ ابھی تازہ ہے اور طالبان کی اعلی قیادت اس پر باضابطہ ردعمل جاری کرے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان نے ماضی میں بات چیت کی ہر تجویز کو مسترد کردیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ماضی کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ آئے جس کا اشارہ طالبان کے ترجمان نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے دیا ہے۔
صدر کرزئی کے قریبی معتمد کے مطابق اس پچاس رکنی کونسل میں جہادی رہنما، مذہبی اسکالرز، کچھ سابق طالبان رہنما اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہوں گے تاکہ کونسل افغان عوام کی مناسب حد تک نمائندگی کر سکے۔
کابل میں بی بی سی کے نامہ نگار مارک ڈمٹ کا کہنا ہے کہ یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کونسل میں وہ جنگی سردار بھی شامل ہوں گے جنہوں نے سنہ 2001 میں طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کے پرچم تلے جنگ کی تھی۔