- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

الخلیل میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 4 یہودی ہلاک

israeli-killed4مقبوضہ القدس(ایجنسیاں) امریکا میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے آغاز سے چند گھنٹے قبل مقبوضہ مغربی کنارے میں مبینہ طور پر بعض مسلح افراد نے ایک گاڑی پر فائرنگ کر دی ہے جس کے نتیجے میں اس میں سوار چار یہودی ہلاک ہو گئے ہیں۔

اسلامی تحریک مزاحمت – حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مزید ایسی کارروائیوں کی دھمکی دی ہے۔
اسرائیلی پولیس کے ترجمان میکی روزنفیلڈ نے بتایا ہے کہ یہودیوں کی گاڑی پر الخلیل کے قریب سفر کے دوران فائرنگ کی گئی ہے۔اسرائیل کی نیشنل ریسکیو سروس کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں دو مرد اور دو عورتیں شامل ہیں۔تاہم اس نے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوا کہ تمام مہلوکین سویلین تھے یا ان میں صہیونی سکیورٹی فورسز کا کوئی اہلکار بھی تھا۔ روزنفیلڈ کا کہنا ہے کہ ”اسرائیلی فوجیوں نے علاقے کا گھیراو کر لیا ہے اور وہ حملہ آوروں کی تلاش کر رہے ہیں”۔ایک اسرائیلی ٹی وی چینل کی اطلاع کے مطابق یہودیوں پر ایک گاڑی سے فائرنگ کی گئی ہے جس کے بعد حملہ آور فرارہ ونے میں کامیاب ہوگئے۔
الخلیل میں ماضی میں بھی فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔اس شہر کے نواح میں ایک قلعہ نما بستی کریات اربع میں پانچ سو کے قریب انتہا پسند یہودی آباد کاروں کو بسایا گیا ہے جہاں اسرائیلی فورسز کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں تعینات ہیں۔
الخلیل میں فائرنگ کے اس واقعے کے بعد مغربی کنارے میں جاری عارضی امن بھی تہہ وبالا ہو گیا ہے اور اب یقینی طور پر اسرائیلی فورسز بھی جوابی کارروائی کریں گی۔اس سے پہلے جون میں فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلیوں پر حملہ کیا گیا تھا۔تب بعض فلسطینیوں نے قابض اسرائیلی پولیس کی ایک گاڑی پر فائرنگ کر دی تھی جس سے ایک افسر ہلاک ہو گیا تھا۔
مغربی کنارے میں یہودیوں پر یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا آغاز کرنےکے لیے واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔
نیتن یاہو یہ کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے سکیورٹی مفادات کا تحفظ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات میں ان کی اولین ترجیح ہو گا۔ واشنگٹن کے لیے روانہ ہونے سے قبل انہوں نے اپنی انتہا پسند جماعت لیکوڈ پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیلیوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے برسر زمین حقیقی انتظامات کریں گے۔
انتہا پسند اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ”حقیقی امن جنگوں کے درمیان وقفے کا نام نہیں ہے اور نہ یہ دہشت گردی کے حملوں کے درمیان مختصر وقفہ ہے۔حقیقی امن وہ ہے جو کئی سال تک برقرار رہے اور نسلوں کے لیے بہتری لائے”۔

القسام نے ذمہ داری قبول کر لی
اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے منگل کی شب مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں یہودی آباکاروں پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس کارروائی میں چار یہودی جہنم واصل ہوئے۔
القسام کے ترجمان ابو عبیدہ نے فلسطینی قوم کو الخلیل شہر میں یہودی آبادکاروں پر حملے کی “خوشخبری” دیتے ہوئے کہا ہے ارض مقدس پر غاصبانہ قبضہ جمانے والے یہودیوں پر حملوں کے سلسلے کی یہ پہلی کارروائی ہے۔ آنے والے دنوں میں اسرائیلیوں کو اپنے جرائم کی مزید قیمت چکانا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ الخلیل آپریشن کے ذریعے ہم نے صہیونی دشمن کو کئی پیغام دیئے ہیں۔ پہلا پیغام یہ ہے کہ فتح ملیشیا کے ہاتھوں مزاحمت کاروں کی بیخ کنی کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ زندہ و پائندہ ہے اور اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کارروائی کرنے پر قادر ہے۔ دوسرا پیغام یہ ہے فلسطین میں مزاحمت اور جہاد جاری ہے اور الخلیل آپریشن اسی مزاحمت کا تسلسل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلیوں کے مظالم کا یہ فطری جواب ہے۔
ابوعبیدہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ کارروائی پہلی اور آخری نہیں بلکہ القسام بریگیڈ کے طے کردہ حملوں کی سیریز کا پہلا وار ہے۔ ہم اسرائیلی جرائم کا جواب مزاحمت کی منظم اسٹرٹیجک کارروائیوں کے ذریعے دیں گے۔
واپس اوپر

ہلیری،عباس ملاقات
ادھر واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان 2 ستمبر کو براہ راست مذاکرات کے آغاز سے قبل فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی ہے۔
ہلیری کلنٹن اور فلسطینی صدر نے بات چیت کے بعد میڈیا کے لیے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔امریکی وزیر خارجہ اب اپنے اردنی ہم منصب ناصرجودہ، مصری ہم منصب احمد ابوالغیط، سابق امریکی صدر جمی کارٹر اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں گروپ چار کے نمائندے ٹونی بلئیر سے الگ الگ ملاقات کر رہی ہیں۔ وہ سب سے آخر میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کریں گی۔
ہلیری کلنٹن اعلیٰ سطح کی ان ملاقاتوں کے دوران مشرق وسطیٰ امن عمل کو آگے بڑھانے اور فریقین کے درمیان متنازعہ امور پر کسی ممکنہ معاہدے تک پہنچنے کے حوالے سے امور پر تبادلہ خیال کر رہی ہیں۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان اس وقت بہت سے مسائل تصفیہ طلب ہیں جو 1948ء میں صہیونی ریاست کے فلسطینی سرزمین پرقیام کے بعد سے جوں کے توں چلے آرہے ہیں۔ان میں بڑے مسائل مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت اور فلسطینی مہاجرین کی ان کے آبائی علاقوں کو واپسی سے متعلق ہے۔
فلسطینی 1967ء کی جنگ سے قبل کےان تمام علاقوں پر مشتمل اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہاں ہیں،جن پراسرائیل نے فوج کشی کے بعد قبضہ کر لیا تھا جبکہ وہ القدس کو اپنی اس مجوزہ ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل اس کو اپنا دائمی دارالحکومت قرار دیتا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر بھی فریقین کے درمیان ایک اہم ایشو ہے۔اسرائیل نے گذشتہ سال دس ماہ کے لیے یہودی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔یہ مدت 26 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے اور فلسطینی صدر کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے یہودی آبادکاری کا عمل بحال کیا تو وہ امن مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیں گے۔انہوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ خطے میں امن کے قیام کے لیےاس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائے۔
محمود عباس اور نیتن یاہو دونوں ہی بعض سمجھوتوں پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں لیکن فریقین کے دوران گذشتہ سترہ سال سے جاری بے نتیجہ مذاکرات کی وجہ سے عدم اعتماد اور شک کی فضا پائی جاتی ہے اور اس کی بڑی وجہ اسرائیلی قیادت کی کہہ مکرنیاں اور فلسطینیوں کوان کے جائز حقوق دینے سے مسلسل انکار کا رویہ ہے۔