- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

کوسوؤ میں اسلامی بیداری کی لہر

kosofa-mapسترہ فروری 2008ء کو جب کوسوؤ کے وزیر اعظم ہاشم تاچی نے منتخب پارلیمنٹ کے سامنے سربیا سے آزادی اور خود مختاری کے اعلان کیا تو پہلی بار یہ غیر معروف نام عالمی میڈیا پر بار بار سنا گیا اور اعلان آزادی کی یہ خوش کن خبر سن کر عالم اسلام میں خوشی اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی مگر اس اعلان کے کچھ ہی عرصہ بعد یہ نام دوبارہ پردہ اخفا میں چلا گیا۔

کوسوؤ یورپ کا تیسرا اور دنیا کا 58 واں اسلامی ملک ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد اسی خطہ میں یکجا ہے۔ یہاں کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آمد اور سکونت کا سلسلہ 1389میں اس وقت شروع ہوا جب سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں سربوں نے شکست کھائی۔سربوں کی اس شکست اور مسلمانوں کی اس آباد کاری کے بعد یہ خطہ سربیا اور مسلمانوں کے مابین جنگ و جدل کا ایک کل وقتی میدان بنا رہا۔ خانہ جنگی اور بدامنی اس علاقے کا جزو عنصری اور نشان امتیاز بنا رہا۔ خصوصاً 1980کی دہائی اور اواخر میں اس وقت یہاں کے حالات امن و امان کے حوالہ سے انتہائی بدترین سطح پر پہنچ گئے جب سرب لیڈر سلوبودان ملازوچ نے یہاں کے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا اور ان کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ کوسوؤ اس وقت تک ایک نیم آزاد اور خود مختار صوبہ کی حیثیت رکھتا تھا لیکن اس المناک سانحہ کے بعد اس کی یہ حیثیت بھی جاتی رہی اور یہ مکمل طور پر اپنی آزادی کھو بیٹھا۔
سابقہ سویت یونین کی طرح مشرقی یورپ میں متحد یوگوسلاویہ کے وہ مسلم اکثریتی علاقے (جن میں کوسوؤ بھی شامل تھا) جو کمیونزم کے جبر و استبداد کا شکار ہوئے، ان کے اندر مسلمانوں پر ایسے قیامت خیز مظام ڈھائے گئے کہ ان کی داستانیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ظلم و جور کی ایسی انسانیت سوز مثالیں کہ جن کے بارے میں سن کر رواں رواں کانپ اٹھے۔بیشتر مساجد کو منہدم کر دیا گیا، بعض کو سنیما گھروں میں تبدیل کر دیا گیا اور پھر بھی اگر کچھ بچ رہی تو ان کو تالے لگا دیے گئے۔اسلامی ارکان و فرائض کی بجا آوری جرم قرار پائی گئی۔دینی تعلیم کو کوئی تصور نہیں تھا۔مذہبی پیشواؤں کے روپ میں مسلمانوں کے پاس اتنے ایجنٹ بھیجے جنہوں نے انہیں جا کر کہا کہ اب تک ہم تمہیں دین کے بارے میں جو کچھ بتاتے رہے وہ سب جھوٹ ہیں۔ اسلام میں شراب اور خنزیرنام کی کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ آج کے بعد جو تمہارے جی میں آئے وہ تم کر سکتے ہواور کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔جب کسی کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ روزہ سے ہے تو جبراً شراب یا خنزیر کھلا کر اس کا روزہ تڑوایا جاتا۔مسلمان رمضان کی راتوں میں اس ڈر سے روشنی نہ کرتے کہ کہیں ان پر سحری کا الزام نہ لگادیا جائے۔
جبر اور تشدد کی اس لاٹھی کے ساتھ مسلمانوں کو دین سے اتنا دور کر دیا گیا کہ طویل عرصہ تک کمیونزم کے زیر عتاب رہنے والی نو آزاد مسلم ریاستوں سے آنے والے تازہ اطلاعات کے مطابق وہاں کی نئی نسل کی اکثریت کو کلمیہ طیبہ تک نہیں آتا۔ بعض ریاستوں میں دوکانوں پر شراب اور خنزیر سرعام دستیاب ہوتا ہے۔فحاشی اور عریانی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔عیسائی مشنریز کا جال بچھا ہوا ہے۔مولانا مفتی محمد تقی عثمانی جو ان حالات کے عینی شاہد ہیں اپنے سفر ناموں میں لکھتے ہیں وہاں کے حالات دیکھ کر تو یہی بہت غنیمت محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں۔ایسی خبروں کے تناظرمیں وہاں جو اسلام کے مستقبل کے حوالہ سے جو تصور بندھتا ہے وہ انتہائی مایوس کن اور حوصلہ شکن ہے۔لیکن پچھلے دنوں یہاں سے ایک ایسی خبر بھی آئی جو کہ حکومتی اقدارا و ر کردارکے حوالے سے اپنے اندر تلخی رکھتی ہے مگر عوامی طرز عمل کے اعتبار سے بہت ہی حوصلہ بخش اور امید افزا ہے۔
خبر پڑھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے کمیونزم کے خاتمے کے بعدخطہ کے مسلمانوں کے حالت زار کو سدھارنے کیلئے دنیا بھر سے آئی اسلامی تبلیغی تنظیموں اور جماعتوں نے یہاں پر جو خدمات سرانجام دیں ، اللہ نے انہیں قبول فرمایا ہے اور اب کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔خبر کچھ یوں ہے کہ کوسوؤ کی وزارت تعلیم نے سرکاری تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے سر ڈھکنے پر پابندی عائد کر دی۔خلاف توقع وزارت تعلیم کے اس فیصلے کے خلاف وہاں کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور احتجاج کیلئے ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں وفاقی دارالحکومت پریشٹینامیں جمع ہوئے اور تکبیر ۔۔۔اللہ اکبر اور لاالہ الااللہ کے پر جوش نعرے لگاتے ہوئے انہوں نے وزارت تعلیم کے دفتر تک پیدل مارچ کیا۔ میں یو ٹیوب پر رکھی اس ویڈیو میں اس ایمان افروز مارچ کے مختلف مناظر دیکھ رہا تھا اکثر مردوں کے وضع قطع اور حلیہ مغربی رنگ میں رنگے ہونے کے باوجود اس جلوس میں ایک بھی عورت دکھائی نہیں دی۔
یورپ کی سڑکوں پر فرزندان اسلام کا اسلام کی بقاء اور تحفظ کیلیے ایسا تاریخی اجتماع اور مارچ کوئی ایسا معمولی واقعہ نہیں کہ جسے نظر انداز کر دیا جائے۔خطہ میں اسلام اور مسلمانوں کو دبانے اور مٹانے کے لئے ہزار جتن کرنے کے باوجود موقع پاتے ہی وہاں کے دینی اعتبار سے انتہائی خستہ حال مسلمانوں کا اپنے دین سے وابستگی کے اظہار کیلئے سڑکوں پر نکل آنا اسلام دشمنوں کیلئے یقیناً لمحہ فکر رہا ہو گا۔تاہم عالمی میڈیا نے سہمے سہمے سے انداز میں اس حادثہ کو بہرحال کوریج دی ہے۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ” کمیونزم ختم ہو چکا ہے۔ ہماری ریاست کو ہمارے ہی خلاف استعمال نہ کرو۔”ان کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج اس وقت تک وقتاً فوقتا ًہوتا رہے گا جب تک پابندی ہٹا نہیں لی جاتی۔

محمد عبداللہ شارق
بہ شکریہ روزنامہ اعتماد ۔ ہندوستان