- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

رمضان۔ سیلاب زدگان کے لئے زیادہ ایثار کا طالب ہے

flood-pakistan1رمضان المبارک کا آغاز ہورہا ہے۔ وہ مہینہ جس میں روزے رکھ کر صاحبان ایمان بھوک پیاس پر قابو پانے، ضبط نفس، دوسروں کے دکھ درد میں کام آنے، فکر و عمل کو اخلاص میں ڈھالنے کے تربیتی نصاب سے گزرتے ہیں اور نیکیوں کی اس بہار سے حسب توفیق حصہ سمیٹتے ہیں۔ زکوٰة، خیرات، صدقات، نیک کاموں کے لئے عطیات اس مہینے کا خاصہ ہیں۔

اس بار یہ ماہ مقدس ایسے وقت آیا ہے جب وطن عزیز تاریخ کے بدترین سیلاب سے دوچار ہے اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ کئی لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ سیلابی ریلوں سے سیکڑوں بستیاں ڈوب گئیں۔ انفرا اسٹرکچر، معیشت، زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے شدید نقصان سے دوچار ہوئے ہیں۔ سیکڑوں افراد نذر اجل ہوچکے ہیں۔ لاکھوں خاندانوں کو جان بچانے کے لئے نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ جبکہ کئی شہروں کو ڈوبنے سے بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
پاک فوج اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کی جانیں بچاکر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے انتھک کوششوں میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 60لاکھ متاثرین کو خوراک کی شدید ضرورت ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس پر عالمی برادری بھی تشویش میں مبتلا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے مدد پہنچانے کی تدابیر کی جارہی ہیں۔ کئی ممالک میں سرکاری اور عوامی سطح پر رقوم کی فراہمی کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ یہ منظرنامہ عام حالات میں بھی انسانی بنیادوں پر ہم سب سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مصائب میں مبتلا لوگوں کی مدد کے لئے جو بھی بن پڑے، وہ کریں۔ مگر رمضان المبارک کی اس خاص وقت میں آمد شاید اس بات کا غیبی اشارہ ہے کہ بے گھر، بے در اور پیسے پیسے کا محتاج ہوکر بکھرنے والے پاکستانیوں کی اپنی بساط سے بھی بڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کریں۔ مزید بارشوں اور نئے سیلابی ریلوں کے خدشات کے منظرنامے میں ماہ صیام دن بھر بھوکے پیاسے رہنے سے آگے بڑھ کر اللہ کی راہ میں ایثار کی ضرورت اجاگر کررہا ہے۔ سحر و افطار کے لوازمات کی جگہ سادہ خوراک اور اس میں بھی جہاں تک ممکن ہو کفایت پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ کروڑوں لوگوں کی یہ تھوڑی تھوڑی بچت ان لوگوں کے مصائب کم کرنے کا ذریعہ بنے جو اپنے ہی ملک میں مہاجرت، بھوک اور بدحالی کے شکار ہونے کے علاوہ وبائی امراض کے خطرات سے بھی دوچار ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے وفاقی و صوبائی سطحوں پر خصوصی فنڈ قائم کئے گئے ہیں۔ مختلف تنظیموں کی طرف سے عطیات جمع کرنے کے لئے کیمپ بھی مختلف مقامات پر نظر آرہے ہیں۔ مگر امدادی کاموں میں حصہ لینے اور عطیات جمع کرانے کے حوالے سے وہ سرگرمی ابھی تک نظر نہیں آئی جو ہر چیلنج کے وقت اس قوم میں نظر آتی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ابتلا کے وقتوں میں زیادہ فعال نظر آیا کرتے ہیں مگر چند شہروں کو چھوڑ کر چاروں صوبوں میں بارش اور سیلاب سے سب سے زیادہ یہی طبقات متاثر ہوئے ہیں۔ جو لوگ براہ راست زد میں نہیں آئے، ان میں سے بھی بڑی تعداد متاثرہ اعزا و اقربا کی میزبانی اور ان کے دکھ بانٹنے میں مصروف ہے۔ جبکہ دہشت گردی کے باعث ہونے والے نقصانات، حکومتی پالیسیوں کے منفی اثرات، مہنگائی، بیروزگاری، کاروباری پہیے کی سست روی نے مل کر ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کا ساتھ دینے کی تمام تر خواہش کے باوجود اس تذبذب میں مبتلا ہیں کہ اپنے بچوں کی آدھی بلکہ اس سے بھی کم خوراک میں کیسے کٹوتی کریں۔ رمضان کا مقدس مہینہ انہیں ان صحابہ کرام کے ایثار کی طرف متوجہ کررہا ہے جنہوں نے سخت ترین حالات میں بھی قومی بقا، وقار اور وحدت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا۔ وطن عزیز کے سیاست دانوں، جاگیرداروں، صنعت کاروں، اعلیٰ حکام اور ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ کی طرف سے جن ناکافی رقوم کے اعلانات سامنے آئے ہیں، وہ یقینا باعث تعجب اور افسوسناک ہیں۔ اس ملک کے وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے والوں، ہر قسم کی مراعات اور اعلٰی مناصب حاصل کرنے والوں، بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرانے والوں، گٹھ جوڑ اور اجارہ داریوں کے ذریعے بے تحاشا منافع کمانے والوں کو کم ازکم اس کڑے وقت میں تو اس قوم کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دینے چاہئیں تھے جس نے ہمیشہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ یہ وقت سیاستدانوں کے ایک دورسرے کو نیچا دکھانے یا پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں ہے۔ سیلاب زدگان کو زبانی بیانات کی نہیں عملی مدد کی ضرورت ہے۔ قوم کو جس چیلنج کا سامنا ہے اس سے کسی بیرونی مدد کے بغیر نمٹا جاسکتا ہے بشرطیکہ حکمرانوں اور اپوزیشن سمیت بااثر افراد پر مشتمل اشرافیہ اس دولت کا ایک حصہ واپس کردے جو اسی قوم سے حاصل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سیاستدانوں، جامعات کے محققین، پانی و بجلی کے شعبوں کے ماہرین سمیت سب کو سرجوڑ کر بھی اور علیحدہ علیحدہ بھی یہ جائزہ لینا چاہئے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر کم سے کم وقت میں کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے اور آگے چل کر اس نوع کے المیوں سے بچنے کے لئے کیا تدابیر اختیارکی جانی چاہئیں۔
مذکورہ مسائل ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے یا تصویری سیشن کا اہتمام کرنے سے نہیں، ٹھوس اقدامات سے حل ہوں گے۔ دوروں کی افادیت اپنی جگہ، مگر ان کے پروٹوکول کے معاملات کو امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا ذریعہ نہیں بننا چاہئے۔ ہم بار بار اس جانب توجہ مبذول کراتے رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے نمائندوں اور متعلقہ ماہرین پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی جانی چاہئے جو فوری نوعیت کے اقدامات پر توجہ دے اور آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کرے۔ اگرچہ نقصانات کا درست اندازہ پانی اترنے کے بعد ہی لگانا ممکن ہے پھر بھی یہ واضح ہے کہ بحالی و آبادکاری کے کاموں کے لئے خطیر سرمائے اور سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے بلدیاتی ادارے فعال و مستعد رہتے تو اس قسم کے مسائل کس حد تک کم ہوسکتے تھے۔ جن علاقوں میں مقامی حکومتوں کی کارکردگی بہتر رہی وہاں کیا فوائد حاصل ہوئے اور جہاں کارکردگی اچھی نہیں رہی وہاں مستقبل میں اچھے نتائج کے لئے کیا تدابیر ناگزیر ہیں؟ ڈیموں، دریاؤں، نہروں اور نالوں کی صفائی اور راستہ بدلنے والے دریاؤں کی مناسب دیکھ بھال کے لئے ماضی کی غفلت سے ہٹ کر کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟
دنیا کے بہت سے ملکوں میں سیلاب آتے رہتے ہیں۔ بعض مقامات پر تو سال بھر ہی بارشیں ہوتی ہیں۔ مگر انہوں نے ایسی سڑکیں بنائی ہیں اور اس نوع کی تدابیر کی ہیں کہ بارش کا پانی نقصان کی بجائے فائدے کا سبب بنتا ہے۔ اسے جمع کرکے بجلی پیدا کرنے اور آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شہروں کے درمیان سے گزرنے والے دریا لوگوں کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان کے اطاعت گزار بنے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح نالوں اور دریاؤں کو تجاوزات سے پاک رکھ کر اور ان کی صفائی یقینی بناکر شہروں میں پانی کھڑا ہونے کے مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جاچکا ہے۔ ہمیں بھی اسے انتظامات کرنا ہونگے کہ جن بارشوں کے لیے ہم دعائیں مانگتے ہیں وہ رحمت کی بجائے زحمت نہ بن جائیں۔جس دریائی پانی کے مسئلے پر ہم اپنے پڑوسی ملک کے استحصالی طرز عمل کے شاکی ہیں، اس کا زیاں روکنے کے انتظامات پر عالمی اداروں کو مطمئن کرسکیں۔ امریکہ سمیت کئی ملک پاکستان کو آبی ذخائر بنانے کے مشورے دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور کئی دیگر رہنما اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم یا دوسرے آبی ذخائر ہوتے تو پانی مستقبل کے لئے جمع کرکے تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔ ہمیں ان تباہیوں سے بچنے کے علاوہ سستی بجلی کی تیاری اور آب پاشی کے لئے پانی کی ضرورت بھی ہے۔ کیوں نہ اس نعمت کو ہم طوفان باد و باراں اور تباہ کن سیلاب کا نام دینے کی بجائے اللہ کی دی ہوئی عقل کے استعمال سے مسخر کرلیں۔ بند باندھ کر واٹر مینجمنٹ کی تدابیر کے ذریعے اپنا اطاعت گزار بنالیں۔ برکھا رت کو موت کا سایہ سمجھنے کی بجائے جھولے ڈالنے اور ساون کے گیت گانے کے موقع میں تبدیل کرلیں؟ رمضان ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرنے والے کسی طاقت کے آگے بے بس نہیں ہوتے۔ جو لوگ اپنے نفس پر قابو پا سکتے ہیں وہ ہر قوت کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے قابل ہوتے ہیں۔ ہم اب تک اگر ایسا نہیں کرسکے تو اس کے اسباب پر غور کرنا چاہئے اور یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انسان اللہ کے نائب کی حیثیت سے زمین کے تمام خزانوں کا مالک ہے۔

(بہ شکریہ اداریہ روزنامہ جنگ)