- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

سندھ: دریا میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب

sindh-floodsكراچی(بى بى سى اردو) دریائے سندھ میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے اور حکام نے ریڈ الرٹ یعنی انتہائی ہنگامی حالت کا اعلان کردیا ہے۔ محمکہ آبپاشی کے مطابق گڈو کے مقام پر ساڑھے دس لاکھ کیوسک پانی گزر رہا ہے اور جاری بارشوں کے باعث دریائے سندھ کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ جبکہ پنجاب سے مزید سیلابی پانی کے ریلے کی آمد بھی متوقح ہے۔

پختون خواہ کو ایک بار پھر سیلابی ریلوں کا سامنا
پاکستان میں صوبۂ خیبرپختونخواہ میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو ایک بار پھر مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا ہے۔
پاکستان میں موجود اقوامِ متحدہ کے اہلکار کا کہنا ہے کہ صوبے کے شمالی حصوں میں موسلادھار بارشوں کے باعث سیلابی ریلوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے لوئردِیر،اپر دِیر، کوہاٹ اور ہنگو کے اضلاع میں کئی ایسے دیہات جو گذشتہ ہفتے کے سیلابی ریلوں سے تو بچ گئے تھے، لیکن اب تازہ سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے ہیں۔
محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ خلیجِ بنگال سے اٹھنے والا ویدر سسٹم اس وقت بھارت پر ہے اور اس کے شدید اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں جو شدید بارشوں کا سبب بن رہے ہیں۔ محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارشوں کا یہ سلسلہ دس اگست تک جاری رہ سکتا ہے۔
شدید بارشوں کی وجہ سے جہاں ایک جانب پہاڑی علاقوں میں دوبارہ سیلابی ریلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے تو دوسری جانب خراب موسم، امدادی کاموں میں بھی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
پشاور میں موجود اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ہنگامی انسانی امداد کے افسر حسین اللہ نے بی بی سی کے ارمان صابر کو بتایا کہ دوبارہ بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد امدادی کاموں میں رکاوٹ درپیش ہے۔
ان کے بقول بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث لوئر دِیر، اپردِیر، شانگلہ اور کوہستان تک سڑکیں تباہ ہوگئیں ہیں، لہذٰا زمینی راستہ منقطع ہونے سے امدادی سامان لے جانا دشوار ہورہا ہے۔
حسین اللہ کا کہنا تھا کہ ’شدید بارشیں شروع ہونے کی وجہ سے امدادی سامان، ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھی پہنچانے کا سلسلہ ملتوی ہوچکا ہے’
اقوامِ متحدہ کے اہلکار نے کہا کہ موسلادھار بارشوں کے سبب پہاڑوں سے سیلابی ریلے آرہے ہیں اور تازہ اطلاعات کے مطابق، اپر دیر، لوئر دیر، کوہاٹ اور ہنگو کے علاقوں میں کئی مزید دیہاتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جو گذشتہ سیلاب میں محفوظ رہے تھے۔

سندھ میں ہنگامی حالت کا اعلان
بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق کشمور کی انتظامیہ کو شدید پریشانی کا سامنا ہے، ٹوڑھی بند کے بعد غوثپور لوپ بند بھی ٹوٹ گیا اور پانی تیزی کے ساتھ آگے بڑہ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نےغوثپور، کرمپور، دڑی قصبوں اور آس پاس کے علاقے خالی کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی صالح صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی نقصان سے بچنے کے لیے یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان قصبوں میں دو لاکھ کے قریب آبادی ہے۔
کچے میں پانی کا بڑا ریلا آنے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پھنس گئی ہے۔ یہ لوگ گھروں، مچانوں اور درختوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں اور ریسکیو کے منتظر ہیں۔
گھوٹکی کے کچے کے علاقے کیٹی اوگاھی سے اسداللہ اوگاھی نے بی بی سی کو ٹیلیفون پر بتایا ’ان کے گاؤں کو پانی نے چاروں اطراف سے گھیرے میں لے رکھا ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اُن کے گاؤں میں پچاس کے قریب لوگ موجود ہیں جو اس وقت گھروں کی چھتوں یا مچانوں پر چڑھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے تیس کے قریب جانور جن میں گائیں اور بھیڑیں بھی شامل ہیں پانی کے ریلے میں بہہ گئی ہیں۔
اسداللہ اوگاھی کا کہنا تھا کہ ان کے یہاں انتظامیہ کے لوگ نہیں پہنچے تھے اس لیے وہ نکل نہیں پائے اب صرف کشتی کی ذریعے ہی انہیں نکالا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب کارونارو ڈرین کا پانی اوور فلو ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے کوئی پچاس کے قریب گاؤں زیر آب آگئے ہیں جن میں پچاس ہزار آبادی موجود ہے۔
ایک مقامی شخص علی حسن مہر نے بی بی سی کو بتایا ’اس نالے پر کچھ لوگوں نے اپنے طور پر پشتے باندھ کر مچھلی کے فارم بنالیے تھے اور پانی آنے کی وجہ سے یہ چھلک گیا ہے اور آبادی زیرِ آب آگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بارش کا سلسلہ جاری ہے جس کہ وجہ سے پانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

قادر پور کے مقام پر بھی پانی آگے بڑہ رہا ہے اور اوجی ڈی سی گیس فیلڈ سے دو کلومیٹر دوری پر پہنچ چکا ہے، اس کے آخری بند کو مضبوط بنایا جارہا ہے۔
دریں اثناء راونتی کے مقام پر کچے کے علاقے میں چار بچے پانی کے ریلے میں ڈوب گئے ہیں، جن میں راشد علی لکھن، اعجاز علی لکھن ، شاھ دوست بگٹی اور زرینہ بگٹی شامل ہیں۔