- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

زاہدان: اہل سنت برادری کا ماضی اور حال

zahedanزاہدان ایران کے صوبہ سیستان وبلوچستان کا صدر مقام صوبائی دارالحکومت ہے۔ یہ شہر ایران کے جنوب مشرقی اور صوبہ بلوچستان کے شمال میں واقع ہے۔ زاہدان پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے بلکل قریب واقع ہے چنانچہ پاکستان کے بارڈر سے صرف بائیس کلومٹر دور ہے۔ زاہدان کا شمار ایران کی بڑی آبادی رکھنے والے شہروں میں ہوتا ہے جس کی آبادی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔

2007ء کی سرکاری مردم شماری کے مطابق زاہدان کی آبادی 8 لاکھ 46 ہزار ہے۔ تین سال گزرنے کے بعد شہر کی آبادی 2007 کی سے کہیں زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ آبادی کی ستر فیصد سے زیادہ سنی بلوچ ہے۔
زاہدان کا موسم خشک ہے۔ بیابانی علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں یہاں موسم بہت گرم ہوتا ہے، بارش کم برستی ہے اور درجہ حرارت 5/42 اور 6/12 کے درمیان ہے۔

زاہدان کی تاریخ پر ایک نظر:
زاہدان کا شمار ایران کے نئے آباد ہونے والے شہروں میں ہوتا ہے جو زیادہ پرانی تاریخ کا حامل نہیں ہے۔
مگر ترقی و عمران کی شاہراہ پر انتہائی تیزی سے گامزن ہے۔ ایک صدی پہلے زاہدان مختلف بلوچ قبائل کا علاقہ تھا جو اپنے اپنے ٹاونز میں رہتے تھے جو اب شہر کے مضافاتی علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔zahedan-map
قاجاریہ کے دور میں جہاں اب شہر قائم ہے صرف بیابانی درخت پائے جاتے تھے جہاں پانی کا ایک چشمہ تھا، چشمہ کا پانی کبھی ظاہر ہوتا کبھی غائب۔ چنانچہ بلوچوں نے اس مقام کا نام ’’دزدآپ‘‘ رکھا جس کا مطلب ہے پانی ک وچرانے والا۔ بلوچی کا یہ لفظ فارسی میں ’’دزدآب‘‘ ہے جو سرکاری فائلوں میں لکھا گیا۔
مقامی بلوچوں کے ایک شخص ’’مراد‘‘ نے 1898ء میں ایک قنات کھود کر ذراعت میں لگ گیا۔ مراد نے ایک چھوٹی سی بستی بنائی جس کا نام ’’دزآپ‘‘ تھا۔
چونکہ علاقہ انتہائی اسٹریٹجک مقام پر واقع تھا جہاں سے برٹش انڈیا کے تجارتی قائلے گزرسکتے تھے تو مرکز میں حکام کی نظریں اس پر پڑگئیں اور اس کے مستقبل اور دزدآپ و آس پاس علاقوں سمیت پورے بلوچستان پر تہران کا قبضہ قائم کرنے کی سوچ نے 1902ء میں حکام کو بلجین ماہریں کی ایک ٹیم بھیجنے پر مجبور کیا۔ بلجین ٹیم نے جیوگریفک اور اسٹریٹجک لحاظ سے چھان بین کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی چنانچہ یہاں ایک کسٹم آفس قائم کیا گیا۔
بلا شبہ کسٹم قائم کرنے سے بستی کی آبادی اور رونقیں بڑھ گئیں اور تاجروں کی بڑی تعداد نے دزدآپ کا رخ کیا۔ اسی طرح جتنی دفاتر اور سرکاری محکمے زیادہ بنائے گئے اتنا ہی مختلف قبیلوں نے بستی کا رخ کیا تا کہ قدرے آرام دہ زندگی حاصل کرسکیں۔
جنگ عظیم کے دوران اس شہر کی اہمیت مزید بڑھ گئی اور ترقی کے آثار زیادہ نمایان نظر آئے۔ چنانچہ انگریزوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر کوئٹہ زاہدان ٹرین لائن بچھادی۔ یہ ریلوے ٹریک اب بھی قائم ہے اگرچہ انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے۔
قاجاریوں کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد ’’پہلوی‘‘ دور آیا۔ پہلوی خاندان کی حکومت انگریزوں کے دست نگر تھے اور قبضہ گیری کا سبق انہی سے لیا تھا چنانچہ رضا خان پہلوی نے 1928ء میں بلوچستان پر حملہ کرکے فوج کی طاقت کے بل بوتے پورے خطے پر قبضہ کیا۔ رضا خان کی فوج نے ان تمام قبائل کا قلع وقمع کیا جنہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں سے مقابلہ کرکے کم ہتھیاروں سے انہیں شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ حملے کے بعد ایرانی فوج کا ایک دستہ انگریزوں کے اشارے پر خطے میں تھرگیا۔
حکومت فوجی دستے کے اختیار میں تھی یہاں تک کہ متعلقہ وزارتوں کو کار حکومت سوپنا گیا اور 1935ء میں دزدآپ کا نام ’’زاہدان‘‘ میں تبدیل ہوا۔ یعنی زاہد لوگوں کا شہر۔

زاہدان کے بلوچ قبائل اور انگریز سامراج کیخلاف ان کا جہاد

پہلی جنگ عظیم آغاز ہونے کے دوران 1916ء میں انگریز افواج نے بلوچستان کا رخ کیا۔ لیکن ایرانی بلوچستان میں داخل ہوتے ہی شروع میں ’’یاراحمد زئی‘‘ اور ’’گمشادزئی‘‘ قبیلے ان سے لڑنے میدان میں اترے جو بلوچستان کے مرکز میں آباد ہیں جبکہ بلوچستان کے شمال میں ’’جمعہ خان‘‘ نے مزاحمت کی راہ اپنائی۔ سردار جمعہ خان ’’اسماعیل زئی‘‘ قبائل کے سربراہ تھے جو اپنے قبیلے کے نوجوانوں اور جنگجووں کے ساتھ مسلح مزاحمت کررہے تھے۔ جمعہ خان نے زاہدان اور آس پاس کے تمام بلوچ قبائل کو انگریزوں کیخلاف متحد کرکے شمالی بلوچستان میں مزاحمت کا آغاز کردیا۔ جمعہ خان ملیشیا اور انگریزوں کے درمیان پہلا معرکہ زاہدان کے قریب ’’گورستانی‘‘ کے مقام پر واقع ہوا جہاں ۷۵ انگریز ہلاک ہوئے جبکہ اسماعیل زئی قبلے کے ۱۸ جنگجو جن میں جمعہ خان کے ۶ بھائی شامل تھے شہید ہوئے۔ یہ معرکہ ایران کی سطح پر انگریزوں کیخلاف پہلا شدید حملہ تھا۔ اس خونین لڑائی کے بعد انگریزوں پر مزاحمتی کاروائیوں کا آغاز ہوا۔baloch-balochistan
اسماعیل زئی قبیلے کے مسلسل حملوں کے باوجود انگریزوں نے بلوچستان میں قیام کر ترجیح دی اور پرسکون قیام کے لیے انگریز فوج کے سربراہ ’’جنرل ڈایر‘‘ نے جمعہ خان کو صلح کی پیش کش کی۔ سردار جمعہ خان اسماعیل زئی نے جنرک ڈایر کا جواب فارسی شعر میں یوں دیا:
پدر کشتی و تخم کین کاشتی *** پدر کشتی را کی بود آشتی
یعنی تم نے باپ قتل کرکے دشمنی کا بیج بویا، جس کا باپ قتل ہوا ہے وی کیسے صلح کرسکتا ہے۔
بالاخر قابض انگریز بلوچ قبائل کی مزاحمت سے تنگ آگئے اور اس تحریک مزاحمت سے جان چھڑانے کیلیے اپنا آخری حربہ استعمال کیا۔ چنانچہ انگریزوں نے مرکزی حکومت کو پیغام بھیجا کہ بلوچ قبائل نے مرکز سے بغاوت کیا ہے اور یہ مزاحمت ان کیخلاف ہے۔ کٹھ پتلی حکومت نے اپنی ہی قوم کے قبائل کو قلع قمع کرنے کیلیے فوج روانہ کی اتا کہ اپنے انگریز آقاؤں کو خوش کرسکین۔ مرکزی حکومت نے پوسیدہ پالیسی کی رو سے مزاحمت کرنے والے قبائل کے سرداروں کو جلاوطن کردیا۔ یہاں تک کہ دارالحکومت میں حکومت تبدیل ہوئی اور سرداروں کو عام معافی دی گئی۔ (تاریخ بلوچ وبلوچستان، فارسی)

زاہدانیوں کی بعض خصوصیات
زاہدانی بلوچوں کی سب سے بڑی خصوصیت باعزت زندگی کی تمنا اور خواہش ہے۔ زاہدان کی اکثریت رکھنے والے بلوچ قبائل پہلے بھی اور آج بھی بہادری وجفاکشی میں ضرب المثل تھے اور ہیں۔ فارسی زبان کے معروف شاعر فردوسی کا شعر ہے:
سپاہی زگردان کوچ وبلوچ *** سگالیدہ جنگ مانند قوچ
کہ کس درجہان پشت ایشان ندید *** برہنہ یک انگشت ایشان ندید

ترجمہ: کوچ وبلوچ (دو قبائل) کا ایک دستہ تیار کی اگیا جو مینڈھے کی طرح لڑائی ومقابلے کیلیے آزمودہ تھے۔ پوری دنیا میں کسی نے ان کا پشت نہیں دیکھا ان کی انگلی بھی ننگی نہیں دیکھی گئی۔
سادہ زیستی عمومی طور پر بلوچوں خاص طور پر زاہدانی بلوچوں کی دوسری صفت ہے۔ زاہدانی عوام سادہ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ مالدار لوگ غریبوں کو حقیر نہیں سمجھتے اور غریب عوام طمع کی نظر سے مالداروں کو نہیں دیکھتے۔ اسی طرح مالداروں کے درمیان تکلفات پر مقابلے نہیں چلتے جبکہ غریبوں سے آہیں نہیں نکلتیں جیسا کہ بعض علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہ اچھی صفت در اصل اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہے جن کے اثرات جیساکہ اخلاق حسنہ اور نماز کی پابندی واضح طور پر زاہدان بلوچوں کی زندگی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
دور ودراز بستیوں سے جمعہ کی ادائیگی، گرمیوں میں شوق سے روزہ رکھنا اور اسی طرح حج کے اہم فریضہ کو اہمیت دینا زاہدانی بلوچوں کی خصوصیات میں شامل ہیں۔

زاہدان کے دینی مدارس ومراکز
چونکہ خطے میں پبلک اسکولوں اور سرکاری تعلیمی اداروں کی تعلیمی صورتحال انتہائی ناقص ہے اور اسلامی تعلیمات کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، نیز مسلمان بچوں کی دینی تربیت از حد ضروری ہے اس لیے قرآن وسنت کی تعلیمات کی پرچار کرنے والے مدارس اور معاہد کی تعمیر عمل میں آئی۔ بلوچستان کے دینی مدارس بلوچ عوام میں بیحد مقبول ہیں اور انہیں سپورٹ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان دینی مراکز سے دارالعلوم زاہدان قابل ذکر ہے۔

جامعہ دارالعلوم زاہدان
اس عظیم دینی ادارے کی بنیاد عظیم شیخ اور علامہ مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ کے مبارک ہاتھوں ڈالی گئی۔
یہ جامعہ ایرانی اہل سنت کا سب سے بڑا علمی ادارہ ہے۔ آج دارالعلوم زاہدان پورے خطے کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز بن چکا ہے اور اللہ کے فضل وکرم اور مسلمانوں کی ظاہری ومعنوی مدد سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ دارالعلوم کا بنیادی مقسد اسلامی بیداری اور کتاب وسنت کی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔ daar3
تعلیم اور اہل سنت کی اسلامی تربیت اوقیادت کے میدان دارالعلوم زاہدان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
ایک مختصر مدت میں علمائے کرام، مفتیان عظام اور داعیان دین کے کئی دستے اسلامی معاشرے کو دینے کا اعزاز دارالعلوم زاہدان ہی کو حاصل ہے۔ دارالعلوم کی تربیتی اور دعوتی سرگرمیاں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں اور نہ صرف ایران میں بلکہ آس پاس کے ملکوں میں بھی مسلمان ان پروگراموں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
اپنے منفرد پروجیکٹس کی وجہ سے دارالعلوم زاہدان ایک مستقل دینی ادارہ بن چکا ہے جو اپنے تعلیمی ودعوتی فیصلوں میں آزادانہ طور پر سرگرم عمل ہے۔
دارالعلو م کے اخراجات علاقے کے مسلمان برداشت کررہے ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی حکومت یا سرکاری ادارے سے کوئی تعاون نہیں لیا جاتا ہے۔ (دارالعلوم زاہدان کے بارے میں مزید معلومات کیلیے یہاں [1]کلک کریں)
زاہدان کے دیگر معروف تعلیمی اداروں میں ’’اشاعۃ التوحید‘‘ جس کے مہتمم مولانا محمد شہ بخش ہیں کا نام قابل ذکر ہے، نیز ’’حمادیہ جام جم‘‘، قاسم العلوم، ترتیل القرآن، خیر المدارس، بدر العلوم، مدرسہ مولانا عبدالعزیز، مدرسہ فاروقیہ، مدرسۃ التوحید، نصرۃ العلوم اور تجوید القرآن زاہدان کے مشہور مدارس ہیں۔

زاہدان کی مساجد
زاہدان کا شمار ایران کے ان شہروں میں ہوتاہے جہاں دینی مدارس اور مساجد کی بڑی تعداد موجود ہے جہاں تقریباً ۳۰۰ جامع وغیر جامع مساجد موجود ہیں۔ ان مساجد سے ۱۸ جامع مسجدیں ہیں جن میں سب سے معروف اور بڑی مسجد جامع مکی ہے۔makki3
جامع مسجد مکی ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان وبلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں واقع ہے۔ اس کا کل رقبہ پچاس ہزار مربع میٹر ہے۔ :اسی باری میں دیکھیے: (جامع مسجد مکی [2])
زاہدان کی دیگر جامع مساجد میں بہشتی روڈ میں واقع جامع مسجد فاروقیہ، جامع مسجد (چہار راہ رسولی)، جامع مسجد جام جم، جامع مسجد نورالعین، جامع مسجد کریم آباد، جامع مسجد عثمانیہ، جامع مسجد صدیقی (بابایان)، جامع مسجد جادہ قدیم اور جامع مسجد رحمانی قابل ذکر ہیں۔

زاہدان کی مارکیٹس
زاہدان میں بہت سارے بازار اور شاپنگ سنٹرز ہیں جن میں سب سے مشہور بازار درج ذیل ہیں:
مرکزی بازار: یہ مارکیٹ شہر کے مرکز میں واقع ہے جو تین روڈوں (امیر المومنین روڈ، شریعتی اور بہشتی روڈ) تک پھیلی ہوئی ہے۔ مقامی لوگ اسے ’’بازار‘‘ کہتے ہیں۔bazar
پرانے کپڑوں کی مارکیٹ: اس شاپنگ سنٹر کا نام ’’بازار سلمان زادہ‘‘ ہے جس میں استعمال شدہ کپڑے اور ملبوسات بیچے جاتے ہیں۔ دو مرتبہ نامعلوم افراد نے اس مارکیٹ کو جلانے کی کوشش کی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سیستان وبلوچستان کی ایک چوتھائی آبادی (32 فیصد) ان پڑھ ہے۔ تعلیمی سال 2008-9 کے سالانہ نتائج کے مطابق پبلک تعلیمی اداروں کے 77 ہزار طلبہ امتحانات میں فیل ہوئے تھے جو پورے ایران میں سب سے بڑی فیصد بنتی ہے۔ کسی بھی صوبے میں تعلیم کا معیار اس قدر زوال اور شکست کا شکار نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو: http://www.niazerooz.com/ )

’’محسنین ٹرسٹ‘‘ زاہدان

شہر کے بعض اہل خیر اور نیک تاجروں کے تعاون سے چند سال قبل اس خیراتی ادارے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ محسنین ٹرسٹ کے اغراض ومقاصد درج ذیل ہیں:

1۔ دینی مدارس اور یونیورسٹیز کے طلباء کی مالی اعانت تا کہ اعلی تعلیم حاصل کرسکیں۔
2۔ مساجد کے ائمہ، داعیان دین اور مکاتب قرآنی کے اساتذہ کے ساتھ تعاون۔
3۔ یتیموں، بیواؤں اور غریب ونادار لوگوں کی مالی مدد۔د
4۔ وکیشنل سنٹرز کا قیام جن میں کپڑوں کی سلائی اور کمپیوٹر جیسے حرفے سکھائے جاتے ہین۔
5۔ روضۃ الاطفال کی طرز پر مسلمان بچوں کی صحیح تربیت کے لیے تعلیمی مراکز کی تاسیس۔
6۔ نشہ میں مبتلا افراد کے علاج کیلیے بازیاب سنٹرز اور ہسپتالوں کا قیام.

مالیاتی ادارہ ’’صندوق عزیزی‘‘
دس سال قبل اس مالیاتی ادارے کا قیام عمل لایاگیا۔ یہ ادارہ دارالعلوم زاہدن کے ما تحت ہے اور حکومت ایران سے باقاعدہ رجسڑڈ ہے۔ اس مالیاتی ادارے کے اہداف وخدمات میں علمائے کرام، طلبہ، نوجوان طبقہ اور عام لوگوں کے علمی ومعاشرتی مسائل میں ترقی لانا اور غیر سودی قرضے فراہم کرنا شامل ہے۔ ادارہ ہذا سو فیصد اسلامی شریعت کے مطابق کام کرتا ہے، چنانچہ مشتری یا قرضہ لینے والوں سے کوئی سود نہیں لیا جاتا ہے اور ادارے کے اخراجات اہل خیر وثروت کے تعاون سے ہورے کیے جاتے ہیں۔
دس سال کے عرصے میں ’’صندوق عزیزی‘‘ نے ہزاروں افراد کو شادی، تعلیم جاری رکھنے، علاج، مکان ودیگر ضرورتوں کی مد میں چھوٹے بڑے قرضے مہیا کیا ہے۔ ادارے کی انتظامیہ حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تا کہ صندوق عزیزی کو توسیع دیکر بینکوں کی مساوی مالیاتی ادارہ بناسکے۔

زاہدان کے پسماندہ علاقے
shirabadزاہدان کا شہر متعدد نئے اور پرانے علاقوں اور ٹاونز کا مجموعہ ہے۔ زاہدان کے سب سے پرانا ٹاون ’’شیرآباد‘‘ ہےء جو انتہائی پسماندہ شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’کریم آباد‘‘، ’’جام جم‘‘، ’’جادہ قدیم‘‘، ’’مرادقلی‘‘ اور ’’کارخانہ نمک‘‘ بھی پسماندہ علاقے ہیں جن کے باسی بلوچ اور سنی ہیں۔ ان ٹاونز کی گلیاں اور سڑکیں تنگ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ صفائی کی صورتحال بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ یہاں جاکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آدمی پرانے زمانے میں رہتا ہے۔

خواتین کے مدارس
کسی بھی مسلم معاشرے میں خواتین کے کردار اور اصلاح معاشرہ میں ان کے موثر خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ سی اہمیت کے پیش نظر زاہدانی علمائے کرام اور دین کے خیر خواہوں نے خواتین کی ترلیم وتربیت کے لیے مخصوص مراکز کے قیام کی سوچ کو جامہ عمل پہنایا۔ مدرسۃ البنات یا مقامی زبان کے مطابق ’’مکتب‘‘ مسلم لڑکیوں کے رجوع کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ زاہدان میں بڑے مکاتب برائے خواتین کی تعداد چالیس سے اوپر ہے۔
جبکہ چھوٹے مکتبوں (مدرسۃ البنات) کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مدرسۃ البنات کا نصاب ونظام عام مدارس کے نصاب سے مختلف ہے۔ عام طور پر پانچ سے سات سالوں کے دوران مسلمان بچیاں قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہی، عربی زبان اور تفسیر وفقہ میں مہارت حاصل کرتی ہیں۔

مرکز دعوت وتبلیغ زاہدان
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دعوت وتبلیغ کا کام بڑے پیمانے پر ہوتا چلا آرہاہے۔ ایران کے اکثر سنی اکثریت شہروں تبلیغی مراکز موجود ہیں خاص کر ایرانی بلوچستان کے تقریباً تمام شہروں میں مرکز جماعت دعوت وتبلیغ موجود ہے۔ لیکن پورے ایران میں سب سے بڑا مراکز نشر دعوت توحید وسنت زاہدن کے مغرب میں سعدی روڈ پر واقع ہے۔ مرکز دعوت وتبلیغ کی تمام ذمہ داریاں علمائے کرام اور تبلیغی جماعت کے سرگرم اراکین کی ایک مجلس شورا کے ذمے میں ہیں۔

اہل سنت زاہدان کی عید تہوار
زاہدان ودیگر علاقوں کے سنی مسلمان صرف عیدالفطر اور عید الاضحی کی عید کو بطور تہوار مناتے ہیں۔ eid-mosallaان ایام کو سنی برادری بہت اہمیت دیتی ہے اور ان دنوں میں ایک دوسرے کو عیدمبارک دیتے ہیں۔ خوشی کے ان دنوں میں رشتہ داروں، ہمسایوں اور دوستوں کی ملاقات، ان کی مہمانی اور غریبوں کے ساتھ تعاون لوگوں کے آداب ورسوم میں ہے۔ عیدیں کی نماز مساجد سے باہر مخصوص عیدگاہوں میں ادا کی جاتی ہے۔

سالانہ دینی تقاریب واجتماعات
سالانہ تقریب ختم بخاری وجلسہ دستار بندی دارالعلوم زاہدان:
آج سے بیس برس پہلے 1411 ھ۔ق میں جامعہ دارالعلوم زاہدان کے دورہ حدیث سے علماء کا پہلا گروہ فارغ التحصیل ہوا جن کے اعزاز میں بر صغیر کے دینی مدارس کے طرز پر جامع مسجد مکی میں تقریب منعقد ہوئی۔ درس نظامی کے آخری سال کے طلبہ کے اعزاز میں منعقد تقریب ہر سال رجب کے مبارک مہینے میں کئی سالوں تک مکی مسجد میں منعقد ہوتی رہی یہاں تک زاہدان کے علاوہ دیگر شہروں اور علاقوں کے سنی مسلمانوں نے تقریب میں شرکت کی غرض سے دوردراز راستوں کا سفر کیا۔ چنانچہ تقریب کی مدت کو دو دن تک توسیع کردی گئی اور اب یہ بین الاقوامی دینی وروحانی تقریب زاہدان کی مرکزی عیدگاہ میں منعقد ہوتی ہے۔khatm-bukhari
اسی طرح اتحاد مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان (شورائے مدارس) کے مہتممیں وذمہ داران کا جلسہ ہر سال دارالعلوم زاہدان سمیت دیگر رکن مدارس میں منعقد ہوتاہے۔ یہ جلسہ تین مرتبہ سالانہ منعقد ہوتا ہے۔
ایک اور اہم سالانہ اجتماع جو دارالعلوم زاہدان کے تحت منعقد ہو تاہے وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے سنی طلباء و اساتذہ کا زاہدان میں اجتماع ہے۔ اس جلسہ میں ایران کے مختلف صوبوں اور شہروں کے سنی طلباء بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ مزید برآن قبائلی عمائدیں کا جلسہ ہنگامی حالات میں احاطہ دارالعلوم زاہدان یا مکی مسجد میں انعقاد پذیر ہو تاہے۔

زاہدان کی معروف شخصیات
مولانا عبدالعزیز ملازادہ، قاضی شاہ محمد، قاضی خیر محمد، مولانا عبدالغفور، مولانا نورمحمد، مولانا نعمت اللہ توحیدی رحمہم اللہ معروف علماء اور شخصیات ہیں جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان شخصیات کا زاہدان کے سنی عوام پر گہرا مثبت اثر رہا ہے جن کی محنتوں کی بدولت زاہدان اور آس پاس علاقوں میں انقلاب آیا اور لوگ برائیوں اور خرافات سے دور ہوکر دین کی طرف مائل ہوئے۔ اب حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید امام اور خطیب اہل سنت، دارالعلوم کے مفتی مولانا محمدقاسم قاسمی، مولانا عبدالغنی بدری اور مولانا احمد ناروئی و دیگر علماء و دانشوران انہیں بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر قرآن ونست کی تعلیمات کو عام کرنے اور بدعات وخرافات سے مقابلہ کرنے کا عظیم کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء

اہل سنت زاہدان کی معاشی صورتحال
اہم جیوگریفک اور اسٹریٹجک مقام پر واقع ہونے کے باوجود زاہدان اپنی تاسیس سے لیکر آج تک پسماندہ چلا آرہاہے۔
اسے پسماندہ رکھنے میں مرکزی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کا کردار رہاہے۔ حالانکہ زاہدانی عوام نے بھی پہلوی حکومت کے سقوط اور انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انقلاب سے تین عشرے گزرنے کے باوجود ابھی تک غربت وپسماندگی کے آثار زاہدان میں واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر چہ پاکستان کی سرحد پر واقع زیرو پوائنٹ گیٹ سے عوام کا گزارہ ہوتاہے مگر اس گیٹ کو بھی حکومت انسداد منشیات یا دہشت گردی کے بہانے میں بند کرتی ہے جس سے عوام کی بڑی تعداد بیروزگار ہوجاتی ہے۔ اس سے بارڈر کے دونوں اطراف آباد عوام کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران کے کسی بھی علاقے میں اتنے بیروزگار نوجوان نہیں جتنا زاہدان میں موجود ہیں۔ اس مشکل کے حل کے لیے ذمہ دار حضرات کو ٹھوس اور پائیدار اقدامات اٹھانا چاہیے۔

سنی آن لائن/اردو