- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

امریکہ کو پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے

us-pk2ہفتہ کے روز امریکہ کے فوجی کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے اسلام آباد میں پاکستان کی عسکری قیادت سے کی جانے والی ملاقاتوں میں جو کچھ کہا اس کے بارے میں پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں تو یہی بتایا گیا ہے کہ ان میں عالمی سلامتی کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت ، کابل کانفرنس کے اس علاقے پر پڑنے والے امکانی اثرات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کی جانے والی پاکستانی کوششوں اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور کا جائزہ لیا گیا.

لیکن باور کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے عسکری قائدین سے کی جانے والی اس بات چیت میں دیا جانے والا اصل اور حقیقی پیغام وہی ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی امیر البحر نے اپنے سفارتخانہ میں اخبار نویسوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری پاکستان ہی میں چھپے ہوئے ہیں اور لشکر طیبہ کی سرگرمیاں بھی علاقائی حدود سے نکل کر عالمی دہشت گردی سے مربوط ہوتی نظر آ رہی ہیں اس لئے بین الاقوامی برادری اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کرے۔ اسی تعلق میں انہوں نے 2011 میں اتحادی افواج سے نکلنے کی بھی تردید کی اور کہا کہ ان افواہوں کی وجہ سے افغانستان میں امریکہ کے لئے مشکلات پیدا کرنے والے حقانی نیٹ ورک کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ اس نازک مرحلے پر ایسے گروہوں سے کوئی مفاہمت کرنا ممکن نہیں۔ سفارتی زبان میں ملفوف دیئے جانے والے اس سخت پیغام کے جلو میں انہوں نے دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث گروہوں سے نمٹنے کے لئے حکومت پاکستان کے اقدامات پر کوئی تبصرہ کرنے سے تو گریز کیا لیکن یہ ضرور کہا کہ میں پاکستان کی خودمختاری اور اپنے دفاع کے لئے خود فیصلہ کرنے کے حق کو سمجھتا اور اس کا احترام کرتا ہوں لیکن یہ امید بھی کرتا ہوں کہ پاکستان ہمارے اور اپنے سپاہیوں کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے نازک فیصلوں کی اس گھڑی میں یہ بھی ضرور خیال رکھے گا کہ اپنی افواج کی فلاح و بہبود اور اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کے بارے میں کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں بھی اپنی سویلین قیادت کو جوابدہ ہوں۔
جہاں تک اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری کی پاکستان میں موجودگی کے الزامات کا تعلق ہے تو امریکہ کی سول اور فوجی قیادت کی یہ عادت سی بن گئی ہے کہ وہ حکومت پاکستان کی جانب سے کی جانے والی واضح تردیدوں کے باوجود تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اس قسم کی ہوائیاں چھوڑنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی۔
کچھ عرصہ پہلے بعض امریکی اخبارات نے بڑے زور سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ القاعدہ کے ذمہ دار رہنماؤں کی ایک معقول تعداد بلوچستان میں موجود ہے اور کوئٹہ شوریٰ کے نام سے فیصلے کر کے افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف طالبان کی جنگ کی رہنمائی کر رہی ہے لیکن جلد ہی اس پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکل گئی جس کے بعد کچھ دیر تو خاموشی رہی لیکن پھر بعض دوسرے امریکی حلقوں کی جانب سے یہی راگ دوبارہ الاپنا شروع کر دیا گیا اور پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن جیسی ذمہ دار شخصیت نے بھی یہ بیان داغ دیا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان میں کچھ اعلیٰ حکام اسامہ بن لادن کی موجودگی کی خبر رکھتے ہیں لیکن وہ اس بارے میں کوئی لب کشائی کرنے کے لئے تیار نہیں اور اب امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس ایڈمرل مائیک مولن نے پھر یہی آموختہ دہرا دیا ہے کہ القاعدہ کے چوٹی کے لیڈرپاکستان ہی میں موجود ہیں۔
بعض حلقوں کی رائے ہے کہ سوات، مالاکنڈ اور جنوبی وزیرستان میں پاک افواج کے کامیاب آپریشن کے بعد امریکہ کی طرف سے پاکستان سے ڈومور کے مطالبات میں تو کمی آ گئی ہے لیکن اسی سمت میں مزید ایک قدم بڑھاتے ہوئے اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری کی قبائلی علاقوں میں موجودگی کے الزامات کی جو تکرار شروع ہو گئی ہے وہ بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ہی ایک کڑی ہے۔
“دہشت گردی” کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ میں پاکستان اس کا صف اوّل کا ساتھی ہے اور وہ اس معرکے میں ہروال دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے تین ہزار فوجی جوانوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے علاوہ اپنے پورے ملک کو دہشت گردوں کے خودکش حملوں کی زد میں لانے اور اپنی معیشت کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کا صدمہ بھی برداشت کر رہا ہے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود امریکہ اور اس کے درمیان اعتماد کا اس قدر فقدان ہے کہ اسلام آباد کی کھلی تردیدو ں کے باوجود امریکہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اپنے بے پناہ فوجی و اقتصادی وسائل اور پہاڑوں کی بلندیوں اور ان کی وادیوں کی ترائیوں تک میں حرکت کرنے والے جانوروں، پرندوں اور کیڑوں تک کی 60000 فٹ کی اونچائی سے صاف ترین تصویریں لینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اتنی اعلیٰ اطلاعاتی مشینری کے باوجود وہ گزشتہ نو برس میں اسامہ بن لادن کا سراغ نہیں لگا سکا تو وہ پاکستان سے کس طرح توقع کرتا ہے کہ وہ ان سارے ذرائع اور مالی وسائل سے محروم ہونے کے باوجود اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالے۔ اس ساری صورتحال کو سمجھتے ہوئے بھی اگر امریکہ اپنی میں نہ مانوں کی ہٹ پر قائم ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ایڈمرل مائیک مولن خواہ لاکھ کہیں کہ افغانستان سے نکلنے کے لئے صدر اوباما کی طرف سے 2011 کی ڈیڈ لائن کسی بھی لحاظ سے آخری اور حتمی نہیں ہے لیکن افغانستان کے احوال و ظروف کو سمجھنے اور وہاں پر جاری جنگ کی بوقلمونیوں پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ افغانستان امریکہ کے لئے دوسرا ویت نام بن گیا ہے اور اب اس کی ساری کوششوں کا مدعا یہ ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح اس جگہ سے ”باعزت واپسی“ کا کوئی راستہ مل جائے لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ کے سول اور فوجی رہنما جس عیاری سے پاکستان پر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں اس کے مضمرات اور نتائج پر وطن عزیز کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو پوری طرح غور کر لینا چاہئے۔
اگر مائیک مولن یہ فرماتے ہیں کہ وہ اپنی افواج کے مستقبل کے حوالے سے کئے جانے والے فیصلوں کے بارے میں اپنی سویلین قیادت کو جوابدہ ہیں تو انہیں یہ بھی ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ پاکستانی حکام اور اس کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے سربراہ بھی پاکستانی عوام اور اس کے منتخب اداروں کو جوابدہ ہیں اس لئے انہیں بھی امریکہ کے وسیع تر علاقائی و عالمی مفادات کی خاطر ایسے اقدامات پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے جو ان کے وقار اور قومی سلامتی کے منافی ہوں۔ امریکہ اگر پاکستان کی خودمختاری، افواج کی تعیناتی اور قومی اہمیت کے فیصلے خود کرنے کا حق مانتا اور اس کا احترام کرتا ہے تو پھر اسے پاکستان پر مسلح جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کو تحفظ دینے اور انہیں دہشت گردوں کی نرسیاں بنانے کے الزامات لگانے سے اجتناب کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنا ہی باہمی تعلقات کی مضبوطی اور پائیداری کی مضبوط ضمانت ہوتا ہے۔ اور اس پس منظر میں ہم امریکی حکومت اور اس کے فوجی قائدین سے گزارش کریں گے کہ امریکی مفادات کی پاسداری و پاسبانی بجا لیکن پاکستانی مفادات کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔

(بہ شکریہ اداریہ روزنامہ جنگ)