- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

غیر مسلم امریکی مصنفہ کا اپنی نو عمر بیٹی کے حجاب اوڑھنے پر اظہار مسرت

west-hijabلندن (العربيہ۔نت) مسلم خواتین کے یورپ اور مغرب میں نقاب اوڑھنے پر پابندی کے غلو میں کسی غیر مسلم خاتون کا اپنی بیٹی کے لئے نقاب اختیار کا فیصلہ اور اس پر فخر کا اظہار کسی اچنبھے سے کم نہیں۔ کریسٹا بریمر امریکا کی ایک ایسی ہی غیر مسلم ماں ہیں جو اپنی ایک کم سن بیٹی کےاسلامی پردہ اختیار کرنے پر فخر کرتی ہیں۔

متعدد کتابوں کی مصنفہ اور امریکی ریاست شمالی کیرولینا سے شائع ہونے والے میگزین “دی سَن” کی مستقل کالم نگار کریسٹا بریمر نے العربیہ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات پر بہت خوشی ہے کہ میری نو سالہ بیٹی علیاء نے اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ اسلامی پردے کی پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ نقاب کی پابندی کے بعد اسے اپنی بیٹی پہلے سے زیادہ پیاری لگتی ہے۔”
امریکی مصنفہ کریسٹا بریمر کا حال ہی میں” میں نے اپنی بیٹی کو اسلامی پردے کی اجازت کیسے دی” کے عنوان سے ایک مضمون امریکی نشریاتی ادارے” سی این این” کی ویب سائٹ پرشائع ہوا۔ یہی مضمون برطانوی اخبار” دی ٹائمز” نے بھی شائع کیا۔
تصنیف و تالیف کے میدان میں ایوارڈز یافتہ بریمر کے مضمون کی تکرار کے ساتھ اشاعت کی وجہ ان کی بیٹی کا اسلامی پردہ اختیار کرنا اور ماں کی طرف سے اسے روکنے کے بجائے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ مضمون اس قدر دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ قاری کے دل میں اترتا چلاجاتا ہے اور ایک قاری اسے آخر تک پڑھتا چلا جاتا ہے۔
مضمون کے آغاز میں ننھی علیاء کی ولادت اور اس کی ابتدائی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بریمر رقمطراز ہیں کہ اس کی بیٹی کی پیدائش 2001ء میں ہوئی۔ یہ وہی سال ہے جس میں امریکا میں گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اورامریکی محکمہ دفاع کی عمارتوں کو جہازوں سے تباہ کرنے کا سانحہ پیش آیا۔ نائن الیون کے حادثے والے سال اس کی پیدائش بھی دلچپسی سے خالی نہیں۔
بریمرکے شوہر ڈاکٹر اسماعیل السویح گذشتہ کئی سال سے اپنی جنم بھومی لیبیا کے شہر طرابلس میں ہیں۔انہیں بیوی بچوں سے دور اس چیز کی کوئی فکر نہیں کہ ان کے بچے کونسا مذہب اختیار کریں گے۔ بریمر، ننھی علیا اور پانچ سالہ خلیل کے ہمراہ شمالی کیرولینا میں مقیم ہیں۔ کریسٹا بریمر سے رابطے کے بعد لیبیا میں اس کے شوہر ڈاکٹر اسماعیل سے اس کی ننھی بیٹی کے اپنی مرضی سے اسلام کو بطور مذہب اختیار کرنے اور پردہ کی پابندی اپنانے کے بارے میں بات چیت کی گئی۔
انہوں نے بھی بیٹی کے اسلام کا راستہ اختیار کرنے اور پردہ کرنے پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ان کے الفاظ تھے کہ”اگرچہ میری بیٹی نے مجھ سے کوئی براہ راست اثر قبول نہیں کیا، تاہم وہ مجھے کبھی نماز ادا کرتے، روزہ رکھتے اور میرے مسلمان دوستوں سے ملتے دیکھتی تھی، یہیں سے اس نے یہ اثر قبول کیا ہے۔ اس کا اس کم سنی میں پردہ اختیار کرنا اور حجاب اوڑھنے میں خود کو پرسکون محسوس کرنا میرے لیے بھی خوشی کی بات ہے۔”

چھوٹی چیزیں امریکا میں زیادہ پرکشش

گذشتہ برس موسم گرما میں ننھی علیا نے اپنی ماں”کریسٹا بریمر سے کہا کہ” میں چہرے پر نقاب اوڑھنا چاہتی ہوں کیا آپ مجھے اس کی اجازت دیں گی”۔ ماں کے لیے یہ سوال حیران کن تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ “پہلے تو مجھے خیال آیا کہ اسے ایسا کرنے سے روک دووں، لیکن دفعتہ سوچا کہ اگر بچی اپنی مرضی سے پردہ کرنا چاہتی ہے تو میں اسے کیوں منع کروں۔”
وہ مزید کہتی ہیں کہ جب علیاء نے اسلامی پردہ اختیار کرنے کا کہا تو میں نے سوچا کہ شمالی کیرولینا کے “کارپورو” جیسے ماڈرن شہر میں ایسی کونسی سی بات تھی جس نے اسے اسلام اور پردےکی طرف مائل کیا۔ غور کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ کئی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کی شخصیت کا حصہ بن چکی تھی جو اس نے اپنے گرد و پیش سے سیکھی تھیں۔ یہی اس کی زندگی پر اثر انداز ہوئیں۔
العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کریسٹا بریمر نے نہایت فخر کے ساتھ کہا “میں خود کو اس حوالے سے ایک خوش قسمت خاتون سمجھتی ہوں کہ میری بیٹی نے اسلامی پردہ اختیار کیا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ “بیٹی کی چھوٹی عمر میں پیدا ہونے والا یہ تغیر مستقبل میں تبدیل بھی ہوسکتا ہے تاہم اس کے مثبت اثرات تاحیات قائم رہیں گے۔ علیا کے نقاب اوڑھنے سے قبل اسے دیکھ کروہ اتنی خوش نہیں ہوتی تھیں جتنی اب اسے حالت حجاب میں دیکھ کرخوش ہوتی ہیں۔”
ایک سوال پربریمرنے کہا کہ وہ ایک کتاب لکھ رہی جس میں اپنی زندگی سے اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور تجربات کو شامل کیا جائے گا۔

شوہرکے رویے سے اسلام کی حقانیت ثابت

العربیہ سے بات چیت کرتے ہوئے اسلام کی طرف مائل کریسٹا نے اپنے مسلمان شوہر کو ایک “مثالی” اور “نابغہ روزگار” شخصیت قرار دیا۔ کریسٹا کے بہ قول”ان کے شوہر کے رویے اور استقامت میں اسے اسلام کی حقانیت کی وہ حقیقی تصویر دکھائی دیتی ہے جو کتابوں یا تقریروں سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک بیوی کی حیثیت سے میں نے اپنے شوہر سے اسلام کا صحیح عکس حاصل کیا۔ اب میں اپنی زندگی میں اسلام سے متعلق مشاہدات کو اس مذہب کے پیروکاروں سےشیئر کروں گی جو میں ریاست کیرولینا میں دیکھے ہیں۔”
واضح رہے کہ ڈاکٹر اسماعیل السویح پیشے کے اعتبار سے ایک تاجر ہیں۔ طرابلس میں ان کا ایک کمپیوٹر ساز کمپنی میں شیئر ہے۔ چوون سالہ ڈاکٹر اسماعیل پچھلے پانچ سال سے لیبیا ہی میں ہیں۔ انہوں نے شمالی کیرولینا کی ایک یونیورسٹی ارضیات و سمندر کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔