- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

4جولائی۔ مجسمہٴ آزادی کی آواز سنو!

statue-liberty”بے کس، مصیبت زدہ، بے سہارا اور غلام عوام کو ہمارے حوالے کیجیے تاکہ وہ آزادی کی زندگی بسر کرسکیں۔“ یہ الفاظ امریکا کے مجسمہٴ آزادی پر کندہ ہیں۔ نیویارک کی بندرگاہ پر قائم مجسمہٴ آزادی مشعل ہاتھ میں لیے دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کو اپنی آغوش پناہ میں سمیٹنے کی زبان حال سے دعوت دے رہا ہے۔

قارئین! پس منظر کے طورپر یاد رہے 4 جولائی امریکا کا یوم آزادی ہے۔ 1776ء میں امریکا نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ آج چار جولائی بروز اتوار امریکا اپنا 234 واں یوم آزادی جوش وخروش سے منارہا ہے۔ دنیا بھر میں قائم امریکی سفارت اور قونصل خانوں میں کیک کاٹے جارہے ہیں۔ لاہور میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور امریکی قونصل جنرل ”کارمیلا رائے“ نے مل کر کیک کاٹا۔ امریکا کی مختلف ریاستوں نیویارک، ورجینیا، واشنگٹن، بالٹی مور، کیلی فورنیا، فلوریڈا اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں خوشی منائی جارہی ہے۔ یہ یوم آزادی امریکا کے لیے خوشی کا دن بھی ہے اور یوم احتساب بھی۔ امریکا کو افغان جنگ میں ناکامی دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے۔ امریکا کے اہم ترین جنرل اور کمانڈر ناکامی کا برملا الفاظ میں اعتراف کررہے ہیں۔ دورانِ جنگ میک کرسٹل کو برطرف کردیا گیا ہے۔ افغانستان میں امریکا کا جانی ومالی شدید نقصان ہورہا ہے۔ تابوتوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے امریکا کے اندر سے شدید ردِعمل نظر آرہا ہے۔ عراق اور افغانستان سے زندہ لوٹنے والے فوجی جسمانی اور نفسانی طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ امریکا میں اندر سے بغاوت شروع ہوچکی ہے۔ امریکا کی خوشحال ترین ریاست کیلی فورنیا میں علیحدگی کی تحریک عروج پر ہے۔ امریکی انتظامیہ اور پینٹاگون میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ اوباما جو بہت کچھ بدلنے کا عزم لے کر آئے تھے، سوائے میک کرسٹل کے کچھ بھی نہیں بدل سکے ہیں۔ امریکی صدر طاقتور یہودیوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ اپنی تمام تر توانائیاں اسرائیل کے تحفظ کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ اس کی تازہ مثال اسرائیل کی طرف سے فریڈم فلوٹیلا حملہ ہے۔ امریکا نے اسرائیل کا ساتھ دے کر ثابت کردیا کہ وہ ہر حال میں اس کی پشت پر ہے۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر مسلم دنیا میں جو جنگ جاری ہے، اس کی وجہ سے عالم اسلام اور عرب ملکوں میں امریکا کے خلاف سخت نفرت اور انتقام کا جذبہ بڑھ رہا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ امریکا کو چھوٹی چھوٹی ریاستیں اور افراد للکار رہے ہیں۔ امریکی معیشت تباہی کے دہانے کھڑی ہے۔ سو سوسالہ قدیم بینک دیوالیہ ہورہے ہیں۔ امریکا کی 84 ریاستیں بے روزگاری کی لپیٹ میں ہیں۔ امریکا ہی سے دانشور امریکا کے خلاف بول اور لکھ رہے ہیں۔ امریکی افواج حواس باختہ ہوکر بے گناہوں کو مار رہی ہے۔ محض شک کی بنا پر ہزاروں افراد کو عقوبت خانوں میں بند کرکے ٹارچر کیا جارہا ہے۔ امریکا کی دجالی ٹیکنالوجی کو نہتے لوگوں نے ناکام بناکر رکھ دیا ہے۔ امریکا کی خوں آشام پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے اس کے اپنے اتحادی بھی ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی امریکا کے خلاف زبان کھولنی شروع کردی ہے۔ کیونکہ امریکا نے گوانتا ناموبے، بگرام جیل، ابوغریب اور سمندر میں قائم اپنے اذیت خانوں میں ایسے بیسیوں بے گناہوں کو قید کررکھا تھا جو کسی بھی جرم میں ملوث نہ تھے۔ اس کے باوجود امریکا نے انسانیت سوز عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ہے۔ آٹھ سال میں بے گناہ صرف شک کی بناپر مختلف عقوبت خانوں میں رکھا۔ ظلم وجبر کے جتنے حربے تھے، آزمائے گئے۔ ان کے معصوم اور شیر خوار بچے تک کو قید میں رکھا گیا۔ حالانکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق کسی بھی شخص کو جرم ثابت کیے بغیر حراست میں نہیں لیا جاسکتا۔ گرفتار شدہ کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسے قانونی دفاع کا پورا پورا حق دیا جاتا ہے لیکن انسانی حقوق کے ٹھیکیدار امریکا نے 7 سال تک عافیہ کی گرفتاری بھی ظاہر نہ کی۔ پھر بھلا ہو نومسلم برطانوی صحافی ایوان ریڈلے کا جو یہ ظلم دنیا کے سامنے لائی۔ 2006ء میں سابق امریکی صدربش نے تسلیم کیا تھا سی آئی اے کے پاس دنیا بھر میں عقوبت خانے ہیں۔ بلیک سائٹس کا نام دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے ہماری بدنامی ہورہی ہے۔ انہی دنوں امریکا کے 306 سابق اعلیٰ حکومتی عہدیداروں، وزیروں، دفاعی ماہرین اور تھنک ٹینک نے عراق، افغانستان، صومالیہ سمیت دنیا بھر میں امریکی عقوبت خانوں اور غیر قانونی تفتیشی مراکز کو بند کرنے کا یہ پرزور مطالبہ کیا تھا۔ امریکی صدر اوباما نے بھی آتے ہی اعلان کیا تھا وہ یہ اذیت کدے بند کریں گے لیکن تاحال وہ اسی طرح جاری ہے۔ امریکا نے جنیوا کنونشن کی اس طرح دھجیاں اُڑائی ہیں کہ الامان والحفیظ۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک آزاد ملک دوسرے آزاد ملک پر حملہ نہیں کرسکتا لیکن امریکا اپنے یوم آزادی 1776ء سے آج 2010ء تک 234 سالوں میں 223 مرتبہ مختلف آزاد اور خودمختار ممالک اور قوموں پر جارحیت کا ارتکاب کرچکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے 24 ممالک پر بمباری کا مرتکب جرم لاحاصل کرچکا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مسلم دنیا کے 58 ممالک کو اپنا دشمن سمجھا ہوا ہے۔ افغانستان اور عراق کو خون میں تڑپانے کے بعد بھی یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا۔ اور تو اور امریکا جن کو اپنا ”اتحادی“ کہتا ہے اس کے خلاف بھی نظریاتی، عسکری اور سیاسی ہمہ جہت جنگ جاری ہے۔ پاکستان کے دوستوں کو ان سے دور کرنے کے لیے ہرقسم کے حربے آزمائے جارہے ہیں۔ کیسی ستم ظریفی ہے امریکا ”دوست“ پاکستان کو کہتا ہے اور ایٹمی معاہدہ بھارت کے ساتھ کرتا ہے۔
اگر پاکستان چین کے ساتھ ایٹمی ری ایکٹرز کے لیے معاہدہ کرتا ہے تو امریکا کے ادارے چیں بجبیں ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے دشمن بھارت کو کھلی چوٹ ہے وہ جدید ٹیکنالوجی حاصل کرے۔ اپنی ایٹمی صلاحیت میں اضافہ کرے لیکن پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے خطرے کی بُو آتی ہے۔ آئے دن بھارت اور اسرائیل امریکا کے ساتھ مل کر واویلا کرتا ہے ہمارا ایٹمی پروگرام محفوظ نہیں ہے۔ بھارت ان تینوں حوالوں سے ریڈزون پر کھڑا ہے۔ اس کے بالمقابل پاکستان کا ایٹمی پروگرام انتہائی محفوظ ہے۔ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں امریکی اداروں کا کہنا ہے یہ محفوظ نہیں ہیں۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے خود امریکا کے ہتھیار چوری ہوئے ہیں۔ 1977ء سے لے کر 2010ء تک کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جو دنیا کے امن کے لیے خطرے کا باعث بنے۔ اب جبکہ پاکستان کی سلامتی کے محافظ اداروں نے امریکیوں کے دانت کھٹے کردیے۔ تو مجبوراً امریکی فوج کے سربراہ مائیک مولن نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرلیا ہے ۔ یہ یقینا ہماری عسکری کامیابی ہے۔ ہماری سلامتی کے محافظ ادارے جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی ہی ہیں جو اول تا آخر ایٹمی پروگرام کی نگرانی کررہے ہیں۔ ہماری فوج اور آئی ایس آئی دنیا کی منظم اور مانی ہوئی ایجنسی ہے۔افغانوں نے امریکا کو بھی وہاں تک پہنچادیا ہے کہ آج چار جولائی کو امریکا اپنا یومِ آزادی مناتے ہوئے بہت کچھ سوچنے اور اپنے مجسمہٴ آزادی پر کندہ پیغام پر ازسر نو غوروفکر کرنے کو تیار نظر آرہا ہے۔

انور غازی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)