- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ایم ایم اے کا نیاجنم۔مگر کیسے؟

mma2یہ محفل صوابی میں دریائے سندھ کے کنارے محترم بھائی میجر(ر) عامر کے فارم ”نیساپور“ میں جمی تھی۔ حسب عادت وہ میزبان اور مولانا فضل الرحمان مہمان خصوصی تھے ۔ اشاعت التوحید والسنة کے امیر مولانا محمد طیب طاہری اور شیخ الحدیث مولانا محمد یار میزبانِ خصوصی جبکہ مولانا محمد قاسم اور مولانا امان اللہ حقانی مہمان خصوصی کا ساتھ دینے کے لئے تشریف فرماتھے۔ممتاز اور سینئر صحافی قیصر محمود بٹ‘ عرفان صدیقی اورمحمد جمیل ایڈوکیٹ بھی مہمانوں کی حیثیت سے شریک تھے۔حال ہی میں آئی ایس ایس(ہیگ) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے ساتھ واپس لوٹنے والے ڈاکٹر حسن الامین ‘ ڈاکٹر عامر عبداللہ اور یہ طالب علم بھی مدعوئین کی فہرست میں شامل تھے جبکہ متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ فعال بنانے کے لئے مولانا فضل الرحمان کی کوششیں زیربحث تھیں۔

مولانا محترم کی موجودگی میں اپنے سینئیرز (عرفان صدیقی‘ قیصر محمود بٹ اور جمیل ایڈوکیٹ) کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہوتے ہوئے اگر یہ لوگ (دینی سیاسی لیڈر) پھر اکٹھے ہوگئے تو ہم روزقیامت اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے ؟ کیوں نہ ہم ایم ایم اے کے دوبارہ فعال بننے سے قبل حقائق سے پردہ اٹھا کر راستہ روکیں؟۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دیگر مذہبی لیڈروں کی طرح مولانا فضل الرحمان صاحب بھی آگ بگولہ ہوتے اور مجھے گمراہ اور امریکی ایجنٹ جیسے القابات سے مخاطب کرتے لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ مسکرا دئے ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مولانا فضل الرحمان کے سامنے اس طرح کی گستاخی کا مظاہرہ شاید میرا کارنامہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مولانا کا اعزاز ہے کہ وہ اس قسم کے خیالات کے باوجود ہم جیسوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک گوارہ کرلیتے ہیں۔ مولانا محترم نہ صرف آگ اور پانی کو اکٹھا لے کر چلنے کا (ان کی جماعت میں ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں روایتی علماء موجود ہیں تو دوسری طرف اعظم سواتی جیسے امریکہ پلٹ سرمایہ دار اور دنیا دار بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں) ملکہ رکھتے ہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی لاٹ میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے اور مخالف نظریات کے لوگوں کے ساتھ چلنے کا فن بھی صرف آپ ہی جانتے ہیں۔ اس لئے ایم ایم اے کو فساد کی جڑ قرار دینے کے میرے تبصرے پر برہم ہونے کی بجائے مولانا محترم ہنسی مذاق میں جوابی حملہ کرنے لگے ۔ مجھ جیسے قلم اور زبان کے مزدوروں کو جوابی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ صرف دینی جماعتوں کے ہر اقدام کو شک کی نظر سے دیکھتے ہو۔ دیگر سیاسی جماعتیں کچھ بھی کرلیں تو ان کے ساتھ آپ لوگ رعایت برت لیتے ہو لیکن دینی جماعتوں کے ہلتے ہی آپ لوگوں کو سازش نظر آنے لگتی ہے۔ ایم ایم اے کے بننے سے کسی کا کیا بگڑتا ہے اور تم جو ایم ایم اے سے اتنے الرجک ہو تو تمہارا ایم ایم اے نے کیا بگاڑا ہے ؟ جواباً عرض کیا کہ مولانا یقینا دینی سیاسی جماعتوں کے دوبارہ اکٹھا ہونے سے میرا کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوگا۔ آپ کا بھی فائدہ ہوگا۔ جماعت اسلامی کا بھی فائدہ ہوگا۔ اس میں شریک دیگر چھوٹی جماعتوں کے لیڈروں کی سیاست بھی چمک اٹھے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کا بھی فائدہ ہوگا اور شاید امریکہ کو بھی فائدہ ہوگا لیکن چونکہ اسلام کا نقصان ہوگا ‘ اس لئے ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں ایم ایم اے کی دوبارہ تشکیل سے پریشان ہوجاتا ہوں ۔مولانا محترم کا اصرار تھا کہ ایم ایم اے نے امریکی عزائم کے سامنے بند باندھا جبکہ میں مصر تھا کہ ایم ایم اے نے امریکہ کا کام آسان بنایا۔ مولانا فرمارہے تھے کہ ایم ایم اے پرویز مشرف کے بیشتر ارادوں کی راہ میں مزاحم بنی جبکہ میں عرض کررہاتھا کہ ایم ایم اے مشرف کی ضرورت تھی اور اس کے کردار کا انہیں فائدہ ہوا۔ مولانادلائل کے انبار لگا کر بتارہے تھے کہ ایم ایم اے کی وجہ سے فاٹا اور خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی بڑی حد تک کنٹرول میں رہی جبکہ میں جوابی دلائل دے رہا تھا کہ خطے میں عسکریت پسندی کی راہ ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کی پالیسیوں سے ہموار ہوئی۔ مولانا افغانستان اور پاکستان میں عسکریت پسندی سے متعلق دینی سیاسی جماعتوں کی پالیسی کو اصولی قرار دے رہے تھے جبکہ اس طالب علم کا اصرار تھا کہ وہ تضادات اور دوغلے پن پر مبنی پالیسی ہے ۔مولانا کا ارشاد تھا کہ ایم ایم اے نے دینی اقدار کے تحفظ کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں جبکہ میں گذارش کررہا تھا کہ سرحد میں ایم ایم کی حکومت ‘ دینی جماعتوں کی سیاست اور عسکریت پسندی کی وجہ سے مسجد‘ منبر‘ پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوا۔
محفل میں شریک بعض دوست میری تشویش کو یوں بلاوجہ قرار دے رہے تھے کہ ان کے مطابق ایم ایم اے اب دوبارہ فعال نہیں ہوسکتی لیکن میں اس کے دوبارہ فعال ہونے کیلئے بعض سنجیدہ سرگرمیوں کے حوالے دے رہا تھا اور جب میں یہ شواہد سامنے لارہا تھا تو مولانا معنی خیز انداز میں مسکرارہے تھے۔ میر اموقف تھا کہ اب مولانا ایم ایم اے کو فعال بنانے میں سنجیدہ ہیں۔ ایم ایم اے تڑوانے میں بنیادی رول جماعت اسلامی نے ادا کیا تھا اور ابھی تک وہ اس کو دوبارہ فعال بنانے کی حق میں نہیں تھی لیکن گزشتہ تین ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی کو جس بری طرح مار پڑی ہے ۔
اس کے بعد اب جے یو آئی سے زیادہ جماعت اسلامی اس کی دوبارہ فعالیت کی خواہش مند ہے ۔ چھوٹی جماعتوں کے لیڈر ایم ایم اے کے ختم ہوجانے کے بعد منظر سے ہٹ گئے ہیں اور اب ان کو بھی دوبارہ مشرف دور کے جاہ و حشم کی یاد آنے لگی ہے ۔ دلوں کے اندر غبار پہلے بھی موجود تھا اور اب بھی یہ لوگ جتنے ایک دوسرے کے مخالف ہیں ‘ اتنے شاید سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے مخالف نہیں ۔ لیکن ماضی میں بھی انہیں سیاسی ضرورتوں نے اکٹھا کیا تھا اور اب بھی یہی ضرورت اکٹھا کرے گی ۔
میری یہ گستاخیاں زوروں پر تھیں لیکن مولانا محترم کی کشادہ دلی دیکھ لیجئے کہ ان سب کچھ کے باوجود ان کے ماتھے پر شکم نہیں آئی اور وہ ہنسی مذاق میں اس مکالمے کو جاری رکھے ہوئے تھے ۔ کبھی سنجیدگی کا عنصر غالب آتا تو مولانا شجاع الملک کا چٹکلہ ماحول کو دوبارہ خوش گوار کردیتا۔ البتہ ایک موقع پر جب میں نے توپوں کا رخ مولانا محمد طیب کی طرف کردیا تو ماحول تلخ ہونے لگا لیکن آخر میں نشست کے اختتام پر شیخ القرآن مولانا محمد طاہرمرحوم کے تینوں جانشین (میجر محمد عامر‘ مولانا محمد طیب طاہری اور دارلعلوم پنج پیر کے درویش شیخ الحدیث مولانا محمد یار) ایسا تجزیہ اور تجویز سامنے لے آئے کہ جس سے نہ صرف میں ان کا ہم نظر بن گیا بلکہ ان کے تجزیے کے ہر ہرلفظ کو اپنے دل کی آواز سمجھنے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ دینی جماعتوں اور دینی شخصیات کا اتحاد بننا چاہئے لیکن ایم ایم اے کی طرح سیاست اور اقتدار کے لئے نہیں بلکہ عظیم دینی مقاصد کے لئے ۔ اس اتحاد میں شامل لوگوں کا مکالمہ ہونا چاہئے لیکن سیاسی اور سرکاری عہدوں کی بندربانٹ کے لئے نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کو درپیش چیلنجوں پر غور اور ان کے مقابلے کے لئے ۔ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے ‘ ان کی وجہ سے مغرب کو اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا جواز ہاتھ آرہا ہے ۔ لوگ دین سے متنفر ہورہے ہیں ۔ علمائے کرام ‘ مسجد‘ منبر‘ داڑھی اور پگڑی کی عزت و توقیر میں کمی آرہی ہے ۔ اور اس صورت حال کا مقابلہ کرنے اور جہاد یا دیگر دینی احکامات کی متفقہ تشریح و تعبیر سامنے لانے کے لئے تمام دینی قوتوں اور شخصیات کو جمع کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں ایم ایم اے سے باہر دینی جماعتوں اور اداروں کو بھی شامل کیا جائے ۔ مولانا تقی عثمانی‘ مولانا شیر علی شاہ اور اسی نوع کی دیگر قابل قدر دینی شخصیات کو بھی جمع کیا جائے ۔ جو ان مسائل پر غور وخوض کرکے قوم اور امت کی رہنمائی کرے اور پھر انہی مشترکات کی بنیاد پر ہمہ پہلو جدوجہد کرے نہ کہ اقتدار پر قبضے یا پھر اپنی سیاسی قد کاٹ کو بنانے کے لئے ۔
اسی طرح کے اتحاد کی تشکیل کے لئے جدوجہد کے آغاز کی گذارش میں پہلے بھی مولانا محترم کی خدمت میں کرچکا ہوں۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں مولانا تقی عثمانی اورکئی دیگر علمی شخصیات سے ابتدائی ملاقاتیں بھی کی تھیں لیکن نہ جانے پھر وہ سلسلہ آگے کیوں نہ بڑھ سکا۔ حقیقت یہ ہے مذکورہ بنیادوں پر دینی قوتوں اور شخصیات کو جمع کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمان ہی مناسب شخصیت ہیں ۔ وہ اگر مذکورہ مقاصد کے لئے اتحاد کی تشکیل کیلئے سرگرم عمل ہوتے ہیں تو ہم جیسے طالب علم نہ صرف ایم ایم اے کی طرح اس کی مزاحمت کو تقاضائے ایمان نہیں سمجھیں گے بلکہ دینی لحاظ سے اپنے آپ کو دامے درمے سخنے تعاون کا بھی پابند سمجھیں گے ۔ اتحاد کیجئے مگر ان مقاصد کیلئے نہیں جن کیلئے ایم ایم اے بنی تھی بلکہ پاکستان کی بقا اور اسلام کی ترویج کیلئے۔وماعلینا الاالبلاغ

سلیم صافی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)