- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

خطے میں دہشت گردی کی جڑ اسرائیل ہے، خطیب اہل سنت

molana29خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیدنے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل کی سفاکانہ حملے کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا صہیونی ریاست ایک قابض اور جارح ریاست ہے۔ صہیونی متکبرین جارحیت ودرندگی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرکے مظلوم فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔

اسرائیل نے امدادی کارکنوں کے ساتھ جو کچھ کیا یہ اس بات کاثبوت ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جو عالمی سطح پر دہشت گردانہ کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کرتا۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے مزید کہا انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ جو ممالک اور تنظیمیں دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگاکر گلا پھاڑ رہے ہیں وہی لوگ اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں جو دن رات فلسطینی عوام کو قتل یا پھر قیدکرنے اور غائب کرنے میں مصروف ہے۔
غزہ کے غیرانسانی محاصرے اور نہتے فلسطینیوں کی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا غزہ کامحاصرہ ظالمانہ ہے۔ ان کے پاس نہ کھانے پینے کی اشیاء ہیں نہ علاج کیلیے دوائیاں، ایسے میں جب ایک قافلہ امدادی سامان لیکر انسان دوستی جذبے کے تحت غزہ کارخ کرتاہے تو انتہائی بے شرمی اور درندگی کے ساتھ اسرائیل کی قزاقی اور ریاستی لوٹ مارکانشانہ بنتاہے۔
اسرائیل کی اس وحشیانہ کارروائی کو انسانیت پرحملہ اور خطے میں بدامنی کی جڑ قرار دیتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا اقوام متحدہ، امن کونسل و دیگر عالمی تنظیموں ، اسی طرح امریکا، چین، روس اور امن کونسل کے رکن ممالک سمیت پوری دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ جب تک اسرائیل اپنی انسانیت دشمن سرگرمیوں اور عالمی قوانیں کیخلاف حرکتوں سے باز نہیں آئے گا اس وقت تک خطے میں ہرگز امن نہیں آئے گا۔ پورے علاقے میں جتنے بھی بدامنی کے واقعات پیش آتے ہیں ان کی بنیادی وجہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں اور رویہ ہے۔
اگر کمزوروں اور احتجاج کرنے والوں کی آواز اور مظلوموں کی چیخیں نظرانداز ہوتی رہیں تو امن بھی ایک تمنا سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ کیا وہ وقت نہیں آیا ہے کہ بڑی طاقتیں دنیامیں مظلوموں کی بات سنیں، ان کی آراء کا احترام کریں، اسلامی ممالک پر سے اپنا قبضہ ختم کرکے لوگوں کو آزاد چھوڑیں کہ جس طرح چاہیں حکومت کریں۔ امن وسکوں کی راہ اپناتے ہیں یا جنگ وخونریزی کی، ان کی مرضی ہے۔
بین الاقوامی تنظیموں کو مخاطب کرکے عظیم سنی رہنما نے کہا اسرائیل کی اس برملا سفاکی اور سنگ دلی کے حوالے سے عالمی تنظیموں اور حکومتوں کو انصاف سے کام لینا چاہیے۔ غزہ کے محصورین کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے وہ انسانی حقوق کی واضح خلاف روزی ہے۔ حقوق انسانی کیلیے کام کرنے والی تنظیموں کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ پوری دنیاسمیت بین الاقوامی اداروں کوغزہ کا محاصرہ ختم کرنے کیلیے اپنی کوششیں بروئے کار لانا چاہیے۔

اپنے بیان کے پہلے حصے میں بانی انقلاب آیت اللہ خمینی کی برسی کی مناسبت سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا جس تحریک کی قیادت آیت اللہ خمینی نے کی اس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک عوامی تحریک تھی۔ اس انقلاب کی کامیابی وفتح عوام کے تعاون اور قربانیوں سے ممکن ہوئی۔ اس کی بقا بھی عوام کی مدد سے ممکن ہے۔ اس لیے ایران کے سارے عوام اور جماعتوں کی بات سننی چاہیے۔
آیت اللہ خمینی کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب کے ایک اہم نعرہ شیعہ سنی برادر وبرابر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا آیت اللہ خمینی کی ایک بات مجھے یاد ہے کہ کہاکرتے تھے “شیعہ وسنی بھائی بھائی ہیں اور ان کے حقوق برابر ہیں۔” جب مولانا عبدالعزیز(بانی دارالعلوم زاہدان) نے ان سے تہران میں مسجد تعمیر کرنے اجازت طلب کی تو انہوں نے اس کی اجازت دی لیکن انتہاپسند اور تنگ نظر عناصر کی مداخلت کی وجہ سے آج تک اہل سنت والجماعت دارالحکومت تہران میں مسجد سے محروم ہے۔
سنی برادری اور حکام کے درمیاں موجود خلیج کاحوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بات آگے بڑھائی: افسوس کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے چند سنی ممبرز کے علاوہ اعلی حکام سے رابطے کیلیے ہمارا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے اعلی حکام کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کیلیے ہمیں مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے مزید کہا صدر کے مشیر برائے اہل سنت بھی یہ خلیج پرکرنے سے قاصرہے۔ اکثر ان سے مشورہ بھی نہیں کیاجاتاہے۔ بلکہ وہ طویل عرصے تک صدر سے ملاقات کی خواہش بھی پوری نہیں کرسکتے۔ ایک مرتبہ کسی کام کیلیے میں ان سے ملنے تہران گیا تو انہوں نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ ایک سال ہوچکاہے کہ صدراحمدی نژاد سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی ہے! ایک صدر اور اس کے مشیر کے تعلق کا جب یہ حال ہو تو ہم کیسے امید رکھیں کہ وہ ہمارے مسائل حل کرسکیں گے؟
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا اہل سنت اس ملک کے باشندے ہیں اور اس کا جزو ہیں۔ دینی و ملی حقوق کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے۔ امید ہے کہ بانی انقلاب کی اس بات کو جامہ عمل پہنایاجائے کہ شیعہ و سنی کے حقوق برابر ہیں اور سنی مسلمان ایران میں اپنے کامل اور قانونی حقوق حاصل کریں۔