- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

غزہ نوچنے والے آدم خور صہیونی!

israeli-army3اصولی طور پہ تو ہمیں لفظ ”اسرائیل“ کی مذمت کرتے ہوئے احتیاط برتنا چاہیے، یہ ایک جلیل القدر نبی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور قرآن پاک میں سورة بنی اسرائیل اِسی نسبت سے موجود ہے چنانچہ قرآن میں جہاں جہاں ناشکروں، بدکلاموں،قاتلوں ، بدعہدوں اور ایذا پہنچانے والوں کا کثرت سے ذکر کیاگیاہے وہاں اُنہیں ”یہودی“ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے.

اِن کم ظرفوں کو پروردگار نے کبھی اسرائیل کا نام دے کر نہیں دھتکارا کیونکہ یہ تو اسرئیل کے بچوں کے قاتل ہیں، حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل پاک سے تعلق رکھنے والے درجنوں انبیائے کرام علیہم السلام کو اِنہوں نے اذیتیں دے کر شہید کیا،حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیا کی شان میں کفر بکا،اُن کی توہین کی یہاں تک کہ عہد نامہ عتیق میں اِن دونوں باپ بیٹوں کو معاذ اللہ ”عیاش“ قرار دیا اور لکھا کہ ”سلیمان کی (نعوذ باللہ) عیاشی کے سبب اللہ نے اُسے نسیان کی بیماری میں مبتلا کر دیا“…لہٰذا ایسی احسان فراموش قوم کو ”اسرائیل“ کہہ کر کبھی مخاطب ہی نہیں کرنا چاہیے، یہ تو وہ بدفطرت یہودی ہیں جنہیں 1800 عیسوی میں اِن ہی میں سے اُٹھنے والے ”آشکینازی سباتی ین“ نے صہیونی فکر کا زہر پلا کر مزید توانا کیا اور آج اِسی روسی نژاد یہودی کے فلسفہٴ صہیونیت کے علمبردار خود اپنی یہودی ریاست میں اُن ہسپانوی یہودیوں سے بھی جینے کا حق چھین چکے ہیں جو 1492 عیسوی سے ”اصل نسل“ ہونے کے دعوے دار ہیں اور جنہیں عبرانی پر بھ ی مکمل عبور حاصل ہے مگر صہیونیت کی اجارہ داری کے سبب وہ اپنی ہی ریاست میں دوسرے درجے کے یہودی کہلاتے ہیں … اِن sephardic jews پر صہیونیوں نے مظالم کی انتہا کر رکھی ہے کیونکہ صہیونیت کسی مذہب یاضابطے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی غلیظ اور تعفن زدہ سوچ ہے جس کے ڈھیر میں برتری کے کیڑے پرورش پاتے ہیں، چنانچہ اِن بدسرشت قابضوں نے ایک نبی کے نام کی آڑ لے کر ”اسرائیل“ بنا ڈالا اور اُس ناجائز ریاست کے پیچھے چھپ کر اِتنے ظلم کیے کہ آج پوری دنیا اِس ملک سے نفرت کرتی ہے، یعنی دیکھا جائے تو قارون و سامری کی اولادوں کا یہ مشن کامیاب ہوگیا کہ گالی نسل پرستی کے زعم میں مبتلا ہم سرداروں کو نہیں بلکہ یعقوب کے عبرانی نام کو دی جائے تاکہ صحرا میں پھنسے سامری اور زمین میں دھنسے قارون کی شیطانی علامات کو ابلیسی تسکین پہنچے…
اور یہی نہیں بلکہ ہمارے بعض ”لکھے پڑھے“ ٹی وی میزبان اور مغرب کی نقالی کے دلدادہ …لفظ اسرائیل میں موجود حرف s کو z کی آواز میں ادا کرتے ہیں جس سے اسرائیل، ازرائیل بن جاتا ہے …اور پھر جب وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ازرائیلی جاریت اور بربریت نے انسانیت کو شرمندہ کر دیا“ یا ”ازرائیل ایک ناجائز وجود ہے جس نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک صرف ظلم کو فروغ دیا ہے“ یا پھر اِسی طرح کے کچھ اور جملے جو وہ یقینا انجانے میں ادا کرتے ہیں وہ براہِ راست حضرت عزرائیل علیہ السلام کے اسم مبارک پر تنقید کا سبب بنتے ہیں…میرا مطمح نظر یہاں کسی کی اصلاح مقصود نہیں ہے بلکہ صہیونیت کے پیروکاروں کو یہ بتلانا ہے کہ ہم مسلمانوں کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم و تکریم کو اپنا مذہب نہ جانیں، ہم صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (معاذ اللہ) گستاخی پر ہی نہیں تڑپتے بلکہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کے اسم مبارک کی توہین پر بھی دل گرفتہ ہو جاتے ہیں اور کوشش کریں گے کہ تمہارا یہ عزم کبھی پایہٴ تکمیل تک نہ پہنچے کہ تم ہماری زبانوں کو گندا کراؤ… تم ایک ایک ایسی آدم خور یہودی ریاست ہو جس نے انسانوں کو کھا کر اپنا قد بڑھایا ہے، تمہارے وجود نے ایریل شیرون، ایہود بارک، نتن یاہو اور شمیر جیسے قابل نفرت انسانوں کو جنم دیا ہے ، تم نے صبرہ، شتیلہ اور غزہ میں نعشوں کے انبار لگا دیے …بہت سے لوگ آج بھی اِس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ 11 ستمبر 1992 وہ سیاہ ترین دن تھا جب ”معاہدہ بال فور“ کے تحت یورپی ممالک نے تمہاری مصنوعی افزائش کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے امریکی عزائم کے رحم میں یہودی نطفہ رکھا اور تم نے پیٹ پھاڑتے ہی فلسطین پر قبضہ کر لیا…11ستمبر تمہیں بہت محبوب ہے …اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ 1992 ہو یا 2001…بس !مقاصد پورے ہونے چاہیں…چاہے اِس کے لیے دنیا کے نقشے سے ایک پورا ملک مٹے یا جڑواں ٹاور گرے…
ممکن ہے کہ آج غزہ میں شعلے اگلتی بندوقیں خاموش ہوں، شاید اب تک پیاروں کی تدفین بھی عمل میں آ چکی ہو مگر ایہود بارک جیسے سفاکوں کے غضب کا اُبال کبھی ٹھنڈا نہیں ہو گا، اِس بدبخت کو ناز ہے کہ اِس نے یہودی فوج میں رہ کر بچوں کو قتل کیا ہے …20 دسمبر 2001میں اقصیٰ انتفادہ کے دوران اِس کے حکم پر گیارہ سالہ بچے کو زمین پر لٹا کر ”امریکی بلڈوزر“ چلا دیا گیا تھا اور جب کم سن شہید کی ہڈیاں چٹخیں تو اِس گوسالے کے پجاری نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تھا”اِس سے بہترین ساز میں نے آج تک نہیں سنا“…غزہ کئی بار قتل ہوا، مگر خدا کے حکم سے پھر جی اٹھا…مسیح ابن مریم علیہ السلام نے اِن ہی وادیوں میں چہل قدمی کی، یہیں بیٹھ کر آپ نے گمراہوں کو سینے سے لگایا، اِس زمین کا ذرہ ذرہ آج بھی مسیح اللہ کے بابرکت قدموں کی لطافت کو محسوس کرتا ہے اور یقینا اِسی سبب پھر سے جینے لگتا ہے …یہی وہ غزہ ہے جس کے آسمان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہیں سے سرکار العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ عالیشان سواری گذری جس کی عظمت نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بھی اپنی قبر مبارک میں ادب سے کھڑے ہو کر درود پاک بھیجنے کا مژدہ سنایا…غزہ کی اِسی پٹی پر حضرت بنیامین علیہ السلام اپنی اہلیہ کے ساتھ کچھ عرصے تک مقیم رہے اور یہیں حضرت عزیر علیہ السلام نے زیتون کا درخت لگایا…مگر…اِس زمین کے قاتل بھی بہت ہیں، اِس کی عصمت لوٹنے والے بھیڑیے بھی ان گنت ہیں اور اِس کی رفعت کو پامال کرنے والے جنونی بھی بے حساب ہیں…کئی برسوں سے موت پر کسی بوجھ کی طرح بسترِ مرگ پر مصنوعی سانسیں لینے والے ایریل شیرون کے یہ جملے تاریخ کیسے بھلا سکتی ہے، کہ ”میں نہیں جانتا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کیا ہوتے ہیں لیکن میں عہد کرتا ہوں کہ میں ہر اُس فلسطینی بچے کو زندہ جلا دوں گا جو اِس علاقے میں پیدا ہوگا، میرے نزدیک ہر فلسطینی عورت اور بچہ اُن کے مَردوں سے زیادہ خطرناک ہے، فلسطینی بچے کا زندہ رہنا اِس بات کی علامت ہے کہ یہ نسل ابھی اور بڑھے گی، اِن کی عورتوں کی سانسیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ یہ ابھی اور ایسے فلسطینی جنیں گی لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں ایک عام اسرائیلی بھی ہو جاؤں تب بھی کسی فلسطینی کو پاتے ہی اُسے قتل کرنے سے پہلے میں اُسے جلاؤں گا تاکہ مرنے سے پہلے اُسے شدید تکلیف کا احساس ہو…مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک ہی نشانے سے رفح میں 750 فلسطینیوں کو قتل کیا اور اپنے سپاہیوں کو اِس امر کی ترغیب دی کہ وہ فلسطینی خواتین کی کھل کر عصمت دری کریں کیونکہ اِن عورتوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ ہم یہودیوں کی لونڈیاں بن کر رہیں گی اور جو ہمارا جی چاہے گا ہم اِن کے ساتھ کریں گے، لہٰذا دنیا ہمیں یہ نہ بتائے کہ ہمیں اِن کے ساتھ کیا کرنا چاہیے بلکہ ہم سے سیکھے کہ اِن کے ساتھ یہی کرنا چاہیے“…
مجھے نہیں معلوم کہ طویل خاموشی کا سبب کیا ہے مگر گھپ اندھیرے میں ترکوں نے ایک چراغ تو جلایا ہے جس سے منظر کی تلخی کچھ دیر کے لیے واضح ہوئی ہے …بے شک اللہ جسے چاہے توفیق دے اور جسے چاہے قیادت کے لیے منتخب کرے، ہم تو اب تلک اپنے دوستوں کا ہی تعین نہیں کر پائے ہیں تو پھر ایک دشمن پر کیسے متفق ہوں…آئیے کہ ہم سب یہودی ریاست کے عتاب سے بچنے کی نہیں بلکہ اُس خوف سے بچنے کی دعا کریں جو دنیا سے تعلق ٹوٹنے کے تصور کے سبب ہم پر طاری ہوجاتا ہے …کیونکہ کچھوا اُسی وقت آگے بڑھتاہے جب وہ کوہان سے گردن باہر نکالتا ہے …!!!


ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)