- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اسرائیلی درندگی، پاکستانی میڈیا کی مجرمانہ خاموشی!

freedom-shipچار سال سے اسرائیلی محاصرے کے شکار فلسطینیوں کی امداد کےلئے جانے والے 800 سے زائد سیاسی، سماجی، صحافتی اور مختلف سرکاری شخصیات پر مشتمل آزادی بیڑے پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات نے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ ہر درد دل رکھنے والے انسان کو احتجاج کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

آزادی بیڑے کی تیاریاں تقریباً ایک ماہ سے جاری تھیں اور اس بیڑے نے ترکی کے شہر استنبول سے 25 مئی 2010ءکو روانہ ہونا تھا تاہم دنیا بھر سے امدادی کارکنوں، سماجی شخصیات، صحافیوں اور سرکاری افراد کے قافلے میں جوق در جوق شرکت کے باعث تین دن تاخیر سے 28مئی 2010ءکو استنبول کے شہر سے قافلہ ترکی میں قائم سب سے بڑی اسلامی فلاحی تنظیم آئی ایچ ایچ (اسلامی حقوق وحریت) کے سربراہ بلند یلدرم کی سربراہی میں قافلہ روانہ ہوا۔
روانگی کے موقع پر قافلے کے سالار یلدرم نے انتہائی جذباتی انداز میں ترکی کے عوام، پوری امت مسلمہ اور تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی جنگ وجدل کےلئے نہیں بلکہ جون 2007ءسے محصور غزہ کے 13 لاکھ سے زائد افراد کو غذا پہنچانے کےلئے جارہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسرائیل ایک جارح ملک ہے جو کسی بھی سطح پر جاسکتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے انجام کا بھی علم ہے لیکن ہم نے تہیہ کیا ہے کہ ہم معصوم فلسطینیوں کی مدد کرینگے۔
قافلہ جب روانہ ہوا تو 10 لاکھ سے زائد ترکی کے عوام نے انہیں استنبول کی بندرگاہ سے الوداع کیا۔ قافلے میں دنیا کے 40 ممالک کے 800 سے زائد افراد شامل ہیں جن میں 35 ارکان پارلیمنٹ، 44کے قریب عرب اور یورپ کی ممتاز سماجی اور سرکاری شخصیات، 60 سے زائد صحافی اور باقی امدادی کارکن ہیں۔ پاکستان سے اس قافلے میں تین رکنی وفد شامل ہے جس میں خبیب فاﺅنڈیشن کے چیئرمین ندیم احمد خان، آج ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز طلعت حسین اور پروڈیوسر رضا محمود آغا شامل ہیں۔
28مئی کو قافلے کی روانگی کے بعد ہی عرب دنیا کے میڈیا میں بڑے پیمانے پر اس حوالے سے خبریں اور تبصرے جاری تھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان وہ واحد اسلامی ملک تھا جس کا میڈیا نہ صرف اس سے لاعلم بلکہ مجرمانہ غفلت کا شکار تھا۔ یہ وہی میڈیا ہے جو نیم برہنہ لباس میں کھیل کود کرنے والی ثانیہ مرزا اور شعیب ملک کے باتھ روم کے نلکوں تک کی براہ راست رپورٹنگ کرتا ہے اور بعض ذاتی اور نجی نوعیت کی خبروں تک کی رسائی کے لئے کثیر اخراجات کرتا اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں فخر محسوس کرتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے میڈیا کےلئے 13 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی جانیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں کیونکہ مظلوم، محکوم، محروم اور مجبور فلسطینیوں کے پاس اپنی مہم چلانے کےلئے ڈالر نہیں بلکہ وہ فلسطینی خود ایک ایک روٹی کے لقمے کےلئے ترس رہے ہیں۔
عالمی امن کے ٹھیکہ دار امریکہ کے ایماءپر اسرائیل نے جون 2007ءسے ان مجبور غزہ کے فلسطینیوں کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے اور انہیں جو غذا فراہم کی جاتی ہے وہ اصل ضرورت کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے جبکہ ادویات کی قلت کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شاید اسی درد کو محسوس کیا آئی ایچ ایچ کے سربراہ بلند یلدرم نے۔ پھر وہ امن مشن پر نکل پڑے اور ایک ماہ میں دنیا بھر سے مسلمان، عیسائی اور یہودیوں سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 800 سے زائد افراد کو اس امن مشن کےلئے تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس مشن کےلئے نام لکھوانے والوں کی اصل تعداد 3ہزار سے زائد تھی لیکن بعض افراد مجبوریوں اور بروقت تیاریوں کی وجہ سے قافلے میں شریک نہیں ہوسکے۔ یہ قافلہ مجموعی طور پر 8 چھوٹے بحری جہازوں پر مشتمل تھا اسی لئے اس قافلے کا نام فریڈم فلوٹیلا (آزادی بحری بیڑے) کا نام دیا گیا۔ یہ قافلہ اتوار کو بحیرہ اوقیانوس میں اسرائیلی سمندری حدود سے کافی فاصلے پر رات کے وقت رکا۔ اسی دوران اسرائیلی حکومت نے اپنی سمندری حدود میں اچانک 40 ناٹیکل میل اضافے کا اعلان کیا جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے۔ قافلے شرکاءکی کوشش تھی کہ قافلہ فلسطینی حدود میں دن کے وقت داخل ہو کیونکہ اس دوران اگر اسرائیل کوئی جارحیت کرتا ہے تو اس کو ریکارڈ کیا جاسکے جبکہ صورتحال سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ اسرائیل رات کے وقت کارروائی کےلئے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی سمندری حدود سے باہر آکر بین الاقوامی بحری حدود میں اس قافلے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق 20 افراد جاں بحق، 60 زخمی اور 3پاکستانیوں سمیت 120 سے زائد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اسرائیلی حملے سے قبل امریکی صدر بارک اوباما کا یہ بیان میڈیا میں آیا کہ اسرائیلی مفادات کا ہم تحفظ کرینگے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اوباما کا یہ بیان دراصل اسرائیل کےلئے آزادی بیڑے پر حملے کا اشارہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے یہ حملہ پاکستانی وقت کے مطابق صبح 6 بجے کیا۔ کیونکہ اس وقت تک امریکہ سے اس کو ہری جھنڈی دکھادی گئی تھی جس کا اشارہ بارک اوباما نے اپنے بیان میں دیا۔ یہ وہ ساری باتیں ہیں جو اس سے قبل انٹرنیشنل میڈیا کے بعض اداروں اور عرب میڈیا میں آتی رہیں۔
اسلام دشمن اور انسان دشمن یورپی میڈیااس اسرائیلی جارحیت کو بھی آزادی بیڑے کے شرکاءاور اسرائلی فوج کے مابین تصادم قرار دینے کے لئے سر گرم عمل ہے۔دوسری جانب ثانیہ مرزا اور شعیب کے بیڈ روم سے خبریں لانے والا میڈیا ان سارے حالات سے شاید بے خبر ہیں۔ اگر اس قافلے میں تین پاکستانی شامل نہ ہوتے تو شاید میڈیا ایک سنگل کالم خبر لگانے کی بھی جسارت نہ کرتا جبکہ الیکٹرانک میڈیا کی توجہ شاید اس طرف نہ جاتی۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس اسرائیلی جارحیت کے باوجود بھی مختلف چینلز پر آکر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے کے بجائے غزہ کے محکوم مسلمانوں اور حماس کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ شاید حماس کا یہی جرم ہے کہ اس نے ہماری طرح اپنی آزادی، خود مختاری اور دینی حمیت کا سودا کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دی۔ جب اسرائیلی جارحیت کے بعد جب دنیا کے مختلف چینلز میں پیر کوخبریں آنے لگیں تو پاکستانی ٹی وی چینلز کو ہوش آیا اور انہوں نے دبے الفاظ میں خبریں چلانی شروع کیں۔ اس میں بھی الزام اسرائیل کے بجائے محکوم فلسطینیوں اور ان کی مدد کرنے والوں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک طرف ہم آزاد وخود مختار میڈیا کی بات کرتے ہیں۔
دوسری طرف کسی مجبور کی بات کو سامنے لانا تک گوارہ نہیں کرتے۔ کہاں گئے وہ آزادی صحافت کے دعوے کرنے والے اور چیخ چیخ کر قلم کی حرمت کے دعوےدار۔ کہاں گئے وہ ہولوکاسٹ کے نام پر سیخ پا ہونے والے۔ کہاں گئے وہ پاکستانی دانشور جو دنیا کے ہر کونے کی بات کرتے اور انسانی حقوق کے نام پر ڈالر بٹورتے ہیں۔ انہیں اسرائیلی جارحیت نظر نہیں آتی۔ کہاں ہیں وہ عاصمہ جہانگیر جو مخلوط میراتھن اور غیر مسلموں کے ایجنڈے کی تکمیل کےلئے کوشاں رہتی ہے۔ کہاں ہیں وہ اقبال حیدر جو چیخ چیخ کر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ سلام ہو ان آزادی کے حریت پسندوں کو جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ اسرائیل جیسے جارح، ظالم ملک کچھ بھی کرسکتا ہے فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرنے فیصلہ کیا۔ امید ہے کہ ان کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کو اس صفحہ ہستی سے مٹا کر دنیا کے امن کو بچایا جائے۔ اسرائیل کو ختم کئے بغیر نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں امن نہیں ہوسکتا۔ اسرائیل کا خاتمہ ہی دنیا کے تمام انسانوں کی بقاء ہے۔

(عبدالجبار ناصر)