- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

جہاد کی امریکی تشریح، جہادصرف معاشرے کی اصلاح کیلئے ہے

obama333واشنگٹن (اے ایف پی) امریکہ نے کہا ہے کہ جہاد اسلام کا جزو ہے جو معاشرے کو برائی سے پاک کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جہادیوں اور اسلام پسندوں کو ہم دشمن نہیں سمجھتے کیونکہ جہاد ایک مقدس جدوجہد ہے۔

نیوزایجنسیوں کے مطابق امریکہ کے صدر بارک اوباما نے نئی سکیورٹی پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں سابق صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح ختم کر دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ہماری جنگ القاعدہ نیٹ ورک کے خلاف ہے۔ القاعدہ نے اپنی حکمت عملی بدل دی ہے۔ القاعدہ کارروائی کیلئے ماہر افراد کی بجائے کم تربیت یافتہ لوگ استعمال کر رہی ہے۔
امریکہ نے ایران اور شمالی کوریا سے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کریں یا عالمی سطح پر تنہائی میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ نئی اعلان کردہ سکیورٹی پالیسی میں صدر اوباما نے پیشگی حملہ کی سابق صدر بش کی پالیسی بھی ختم کر دی ہے۔
اے ایف پی کو ملنے والی 52 صفحات پر مشتمل دستاویز کے مطابق نئی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ یہ عالمی جنگ کسی ایکشن‘ منصوبے‘ دہشت گردی یا کسی مذہب اسلام کے خلاف نہیں ہے‘ اس کے تحت امریکہ کو یکطرفہ طور پر اگرچہ کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے مگر اس طرح کی اصطلاحات کے تحت نہیں جو کہ بش انتظامیہ نے استعمال کی تھیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اب انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کے لئے پاکستان کی مدد کرے گا‘ افغانستان کو مستحکم کرے گا اور عراق سے ذمہ داری کے ساتھ انخلا کرے گا۔
اس میں پہلی بار داخلی طور پر امریکی سرزمین پر موجود انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے کو سکیورٹی پالیسی کا اہم جزو قرار دیا گیا ہے۔ صدر اوباما نے نئی حکمت عملی متعارف کراتے ہوئے ایک پیغام میں کہا ہے ہماری لانگ ٹرم سکیورٹی دوسروں کو خوفزدہ کرنے میں نہیں بلکہ ہماری جانب سے بات کرنے کے سلیقہ میں مضمر ہے۔
دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جہادی تنظیموں اور جہادیوں کو اپنا مخالف نہیں سمجھتا۔ وہ جو کچھ کر رہی ہیں بہتری کے لئے ہی کر رہے ہیں‘ دہشت گردی ختم کر کے دم لیں گے۔ امریکہ کمزور ملک نہیں بلکہ طاقتور ہے‘ امریکی صدر کی معاشی پالیسیوں نے اس کی پوزیشن مستحکم کر دی ہے۔ قومی سلامتی امریکی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ روس‘ چین سے تعلقات میں ذمہ داریوں کا تعین کیا جانا چاہئے۔
امریکہ مسئلہ فلسطین حل کرنے کا خواہاں ہے‘ وہ دو آزاد ریاستوں کے فارمولے پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ ایک جمہوری اسرائیل اور دوسری آزاد فلسطینی ریاست ہو‘ امریکہ اکیسویں صدی کے لئے اپنی حکمت عملی مرتب کر رہا ہے‘ انہوں نے کہا کہ نیٹو ممالک کے ساتھ امریکہ مزید تعاون چاہتا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت ایران اور شمالی کوریا کو مذاکرات کی دعوت دی جائے گی۔