- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اپنی خبر لیجۓ

mizan“زمانہ بڑا خراب ہے، امانت اور دیانت لوگوں کے دل ہے اٹهـ چکی ہے، رشوت کا بازار گرم ہے، دفتروں میں پیسے یا سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، ہرشخص زیاده سے زیاده بٹورنے کی فکر میں لگا ہوا ہے، شرافت اور اخلاق کا جنازه نکل گیا ہے، بےدینی کا سیلاب چاروں طرف امڈا ہوا ہے، لوگ خدا اور آخرت سے غافل ہو بیٹهے ہیں”.

اس قسم کے جملے ہیں جو ہم دن رات کسی نہ کسی اسلوب سے کہتے یا سنتے رہتے ہیں، ہماری کوئی محفل شاید ہی حالات کی خرابی کے اس شکوے سے خالی ہوتی ہو، اور یہ شکوه کچهـ غلط بهی نہیں، واقعة زندگی کے جس شعبے کی طرف نظر ڈالۓ، ایک نمایاں انحطاط دکهائی دیتا ہے، اور معاشرتی خرابیاں ہمیں گهن کی طرف چاٹ رہی ہیں.
دوسری طرف اصلاح معاشره کی کوششوں کا جائزه لیجۓ، تو بظاہر ان میں بهی کوئی کمی نظر نہیں آتی. نہ جانے کتنے ادارے، کتنی جماعتیں، کتنی انجمنیں اسی معاشرے کی اصلاح کے لۓ قائم ہیں، شاید ملک کا کوئی قابل ذکر حصہ اس قسم کی کوششوں سے خالی نہ ہو، اور ان میں سے بعض کوششوں کا محدود سا اثر کہیں کہیں نظر بهی آجاتا ہے،  لیکن اگر بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کو دیکها جاۓ تو بظاہر یہ ساری کوششیں رائیگاں محسوس ہوتی ہیں، اور معاشرے کی مجموعی فضا پر نہ صرف یہ کہ ان کا کوئی نمایاں اثر ظاہر نہیں ہوتا، بلکہ افق پر امید کی کوئی کرن بهی نظر نہیں آتی.
اس صورت حال کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں، اور یہ اسباب اب اتنے الجهـ گۓ ہیں کہ اس الجهی ہوئی ڈور کاسر اپکڑنا بهی آسان نہیں رہا، لیکن اس وقت میں صرف ایک اہم سبب کا تذکره کرنا چاہتا ہوں جس کی طرف بسا اوقات ہمارا دهیاں نہیں جاتا.
وہ سبب یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی مزاج کچهـ ایسا بن گیا ہے کہ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے، ان کے عیوب تلاش کرنے اور ان کی برائیوں پر تبصره کرنے میں جو لطف آتا ہے وه کسی حقیقی اصلاحی عمل میں نہیں آتا. حالات کی خرابی کا شکوه ہمارے لۓ وقت گذاری کا ایک مشغلہ ہے جس کے نت نۓ اسلوب ہم ایجاد کرتے رہتے ہیں، لیکن ان خرابیوں کی اصلاح کے لۓ کوئی بامعنی قدم اٹهانے کو تیار نہیں ہوتے، اور اگر اصلاح احوال کے لۓ کوئی جهنڈا بلند کرتے بهی ہیں تو ہماری خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اصلاح کے عمل کا آغاز کسی دوسرے سے ہو. ہماری اصلاحی جد و جہد اس ذہنی مفروضے کی بنیاد پر آگے بڑهتی ہے کہ ہمارے سوا ساری دنیا کے لوگ خراب ہوگۓ ہے، اور ان کے اعمال و اخلاق کو درست کرنے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، یہ سب کچهـ سوچتے اور کرتے ہوے یہ خیال بہت کم لوگوں کو آتا ہے کہ کچهـ خرابیاں خود ہمارے اندر بهی ہوسکتی ہیں، اور ہمیں سب سے پہلے ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہۓ، چنانچہ جو اصلاحی تحریک اپنے آپ سے بےخبر ہوکر صرف دوسروں کو اپنا ہدف بناتی ہے، اس میں دوسروں کے لۓ کوئی کشش اور تأثیر نہیں ہوتی، اور وہ محض ایک رسمی کارروائی ہوکر رہ جاتی ہے.
معاشرے کے حالات اور لوگوں کے طرز عمل پر تنقید کا سب سے خطرناک اور نقصان ده  پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں پهیلی ہوئی برائیوں کو خود اپنی غلط کاری کے لۓ وجہ جواز بنالیا جاتا ہے، چنانچہ یہ فقره بکثرت سننے میں آتا رہتا ہے کہ “یہ کام ٹهیک تو نہیں ہے، لیکن زمانے کے حالات کو دیکهتے ہوے کرنا ہی پڑتا ہے” اسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے زمانے اور زمانے کی ساری برائیوں کا تذکره تو اس انداز سے  کرتے ہیں جیسے ہم ان تمام برائیوں سے معصوم اور محفوظ ہیں، لیکن اس تذکرے کے بعد جب عملی زندگی میں پہنچتے ہیں تو ان کاموں کا بےتکان ارتکاب کرتے جاتے ہیں، جنکی برائی بیان کرتے ہوے ہم نے اپنا سارا زور بیان خرچ کیا تها.
اگر ہماری آنکهوں کے سامنے ایک ہولناک آگ بهڑک رہی ہو، اور ہم یقین سے جانتے ہوں کہ اگر اسکی روک تهام نہ کی گئی تو یہ پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لےلیگی تو کیا پهر بهی ہمارا طرز عمل یہ ہوگا کہ هم اطمینان سے بیٹهکر اظہار افسوس کرتے رہیں، اور ہاتهـ پاؤں ہلانے کی کوشش نہ کریں؟ ایسے موقع پر بےوقوف سے بےوقوف شخص بهی آگ کی تفصیلات کو نمک مرچ لگا کر بیان کرنے سے پہلے اسے بجهانے کےلۓ فائربریگیڈ کو فون کرےگا، اور خود بهی اسے بجهانے کا جو طریقہ ممکن ہو اختیار کریگا، اور اگر آگ بجهتی نظر نہ اۓ تو کم از کم خود تو وہاں سے بهاگ ہی کڑها ہوگا، لیکن یہ کام کوئی بدترین دیوانہ ہی کرسکتا ہے کہ یہ سب کچهـ کرنے کے بجاۓ وه آگ کا قصہ لوگوں کو سناکر خود اسی آگ میں چهلانگ لگادے.
لیکن معاشرتی برائیوں کی جس آگ کا تذکره هم دن رات کرتے ہیں عجیب بات ہے کہ اسکے بارے میں ہمارا طرز عمل یہی ہے کہ یہ تذکره کرنے کے بعد هم خود بهی اسی میں کود جاتے ہیں، هم دن رات رشوت خوروں کو صلواتیں سناتے ہیں لیکن اگر کبهی وقت پڑجاۓ تو خود رشوت لینے یا دینے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جهوٹ، خیانت اور حرام خوری کی مذمت ہمارے ورد زبان رہتی ہے، لیکن اگر کبهی داؤں چل جاۓ تو خود ان برائیوں سے نہیں چوکتے، اور اگر کبهی اس پر اعتراض هو تو ٹکسالی جواب یہ ہے کہ سارا معاشره جس ڈهپ پر چل رہا ہے ہم اس سے کٹ کر کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کیا اس طرز عمل کی مثال بالکل ایسی نہیں ہے کہ کوئی شخص بڑهکتی ہوئی آگ کو دیکهکر خود اس میں چهلانگ لگادے؟ جب معاشرے میں برائیوں اور گمراہیوں کا چلن عام ہوجاۓ تو ایسے موقع کے لۓ قرآن کریم نے ایک بڑی اصولی ہدایت عطا فرمائی ہے جس سے غفلت کے نتیجے میں ہم موجوده حالات سے دوچار ہیں، وه ہدایات قرآن کریم ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
«یآ أیها الذین آمنوا علیکم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتدیتم»
اے ایمان والو! خود اپنی خبر لو، اگر تم ہدایت کے راستے پر ہو تو جو لوگ گمراه ہیں وه تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے تم سب کو الله ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پهر وه تمہیں بتائیگا جو کچهـ تم کیا کرتے تهے. (سوره المائده، آیت: 105)
اس آیت کریمہ نے یہ زرین حقیقت ارشاد فرمائی ہے کہ دوسروں کی بدعملی تمہاری بدعملی کےلۓ وجہ جواز نہیں بن سکتی، نہ صرف اس کا تذکره کردینے سے کوئی مقصد حاصل ہوسکتا ہے، تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنی خبر لو، اور کم از کم اپنی ذات کی حد تک بداعمالیوں سے پرہیز کرو، اور اپنا سارا زور خود اپنے آپ کو درست کرنے میں خرچ کردو.
جن برائیوں سے فورا بچ سکتے ہو ان سے فورا بچ جاؤ، اگر کوئی دوسرا شخص رشوت لے رہا ہے تو کم از کم خود خیانت سے اجتناب کرو، اگر کوئی دوسرا جهوٹ بول رہا ہے تو کم از کم تم سچائی کو اپنا شعار بنالو، اگر کوئی دوسرا حرام خوری میں مبتلا ہے  تو کم از کم تم یہ طی کرلو کہ حرام کا کوئی لقمہ میرے پیٹ میں نہیں جائیگا.
یہی ہدایت ایک حدیث میں آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے ان الفاظ میں دی ہے:
«إذا رأیت شحّا مُطاعا و هوًی متّبعا ودنیا مؤثرة و إعجاب کلّ ذی رأی برأیه فعلیک بخاصّة نفسک و دع عنک أمر العامّة»
جب تم دیکهو کہ لوگ جذبہ بخل کی اطاعت کر رہے ہیں، اور خواہشات نفسانی کے پیچهے دوڑ رہے ہیں، دنیا کو ہر معاملے میں ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی راۓ پر گهمنڈ میں مبتلا ہے تو ایسے میں خاص طور پر اپنی اصلاح کی فکر کرو، اور عام لوگوں کے معاملے کو چهوڑ دو. (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، حدیث: 2984، سنن ابی داؤد 3778، سنن ابن ماجہ، 4004)
مطلب یہ ہے کہ ایسے موقع پر عام لوگوں کی برائی کرتے رہنا مسئلے کا کوئی حل نہیں، مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہر شخص اپنی اصلاح کی فکر کرے، اور اپنے آپ کو ان پهیلی ہوئی برائیوں سے بچانے کے لۓ اپنی ساری توانائیاں صرف کردے.
«من قال: هلک الناس فهو اهلکهم»
جو شخص یہ کہتا پهرے کہ لوگ برباد ہوگۓ تو در حقیقت ان سب سے زیاده برباد خود وه شخص ہے. (صحیح مسلم “کتاب البر والصله والاداب” حدیث: 4755 میں یہ الفاظ ہیں: “إذا قال الرجل هلک الناس فهو اهلکهم”. یہی الفاظ سنن ابی داؤد حدیث: 4331 میں ہیں)
یعنی جو شخص ہر وقت دوسروں کی برائیوں کا راگ الاپتا رہتا ہو، اور خود اپنے عیوب کی پروا نہ کرے، وه سب سے زیاده تباه حال ہے، اس کے بجاۓ اگر وه اپنی اصلاح کی فکر کرلے، اور اپنے طرز عمل کا جائزه لیکر اپنی برائیاں دور کرلے تو کم از کم معاشرے سے ایک فرد کی برائی ختم ہوجائیگی، اور تجربہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا ہے، اور ایک فرد کی اصلاح کسی دوسرے کی اصلاح کا بهی ذریعہ بن جاتی ہے، معاشره در حقیقت افراد ہی کے مجموعے سے عبارت ہے، اور اگر افرا د میں اپنی اصلاح کی فکر عام ہوجاۓ تو دهیرے پورا معاشره بهی سنور سکتا ہے.
لہذا مسئلے کا حل یہ نہیں ہے که ہم معاشرے اور اسکی برائیوں کو ہر وقت کوستے ہی رہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات لوگوں میں مایوسی پهیلتی ہے، اور بدعملی کو فروغ ملتا ہے، اس کے بجاۓ مسئلے کا حل قرآن و سنت کے مذکوره بالا ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے حالات کا جائزه لے اور اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی عادت ڈال کر یہ دیکهے کہ اس کے ذمے الله اور اس کے بندوں کے کیا کیا حقوق و فرائض ہیں؟ اور کیا وه واقعة ان حقوق و فرائض کو ٹهیک ٹهیک ادا کر رہا ہے؟ معاشرے کی جن برائیوں کا شکوه اس کی زبان پر ہے، ان میں سے کن کن برائیوں میں وه خود حصہ دار ہے؟
چونکہ ہم نے کبهی اس نقطہ نظر سے اپنا جائزه لینے کی کوشش ہی نہیں کی، اس لۓ یہ اجمالی بہانہ ہم دن رات پیش کرتے رہتے ہیں کہ چارسو پهیلی ہوئی بدعنوانیوں میں ایک اکیلا شخص کیا کرسکتا ہے؟ حالانکه اگر انصاف کے ساتهـ اس طرح جائزه لیکر دیکهیں تو پتہ چلے کہ ان گۓ گذرے حالات میں بهی ایک اکیلا شخص بہت کچهـ کرسکتا ہے، جائزه لینے سے معلوم ہوگا کہ هماری بہت سی غلطیاں اور کوتاہیاں ایسی ہیں جن کا ہم فوری طور پر تدارک کرسکتے ہیں، اور کوئی نہیں ہے جو اس تدارک کے راستے میں رکاوٹ بن سکے.
اور بہت سی غلطیاں ایسی ہیں جنکا اگر فوری تدارک ممکن نہیں ہے تو کم از کم ان کی مقدار اور سنگینی میں فوری طور سے کمی کی جاسکتی ہے، اور بہت سی ایسی بهی ہے جن کی تلافی اور تدارک میں کچهـ دشواریاں ہیں، لیکن وه دشواریاں ایسی نہیں ہیں جو حل نہ ہو سکیں، ان دشواریوں کو دور کرنے کی راہیں سوچی جاسکتی ہیں، آخر اسی گۓ گذرے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد بهی کم نہیں ہے جو برائیوں کی اس بهڑکی ہوئی آگ میں بهی اپنا دامن بچا کر زندگی گذار رہے ہیں، ایسے لوگ اپنی پاکباز زندگی کی وجه سے مر نہیں گۓ، وه بهی اسی معاشرے میں زنده ہیں، بلکہ اگر حقیقت شناس نگاه ہو تو بہت اچهی طرح زنده ہیں.
لیکن ان ساری باتوں کا احساس اسی وقت جاگ سکتا ہے جب دل میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوجاۓ، اور اس فکر کے نتیجے میں اپنا جائزه لینے کی عادت پڑجاۓ، جس دن ضمیر کی یہ طاقت بیدار ہوگئی اور اسکی آواز سننے کے لۓ قلب و ذہن کے دریچے کهل گۓ اس دن صحیح معنی میں اس حقیقت کا انکشاف ہوگا کہ معاشرے کی خرابی کا جو ہوس ہم نے اپنے سروں پر مسلط کر رکها تها، اور جس نے ہمیں اپنی صحت کی ہر تدبیر سے روکا ہوا تها، وه کتنا بے حقیقت اور کتنا بےوزن تها؟ بیمار کا سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیماری کا احساس ہو، اور اس بات کا یقین اس کے دل میں پیدا ہو کہ اسکی بیماری ناقابل علاج نہیں ہے، اور آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم اس احساس اور اس یقین سے مسلح ہوکر اپنی بیماری کا علاج تلاش کرنے کی فکر کریں.

علامہ مفتی تقی عثمانی حفظه الله
ذکر و فکر، ص: 65 – 59