- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عدالت صحابہ؛ ایک ناقابل انکار حقیقت

sahabahبعض لوگ اس عقیدے کو مبالغہ آرائی پر مبنی قرار دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام عادل تھے۔ یہ لوگ عدالت صحابہ کے حوالے سے بعض شکوک وشبہات بھی پھیلاتے ہیں تا کہ اس عقیدے کو غلط ثابت کرسکیں۔ حالانکہ اگر اس گروہ کے دعووں اور کمزور دلائل کا تجزیہ کرکے چھان بین سے کام لیا جائے تو ان کے غلط دعووں کے اور صحابہ کرام رضى الله عنهم کے عادل ہونے میں کسی حقیقت پسند کے لیے شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔

اگر منطق اور عقل سلیم کی نظر سے مسئلہ عدالت صحابہ کی تحقیق کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے مقاصد میں سے ایک اہم ہدف ومقصد پوری انسانیت کو دین اسلام کی طرف بلاناتھا۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے لوگوں کی اصلاح اورانکی تزکیہ کے لیے کوشش کرنا آپ صلى الله عليه وسلم کی ذمہ داریوں میں سے تھی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: {هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ} (وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے) (جمعہ-۲)
اب اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ 23 سالہ شب وروز محنت کے نتیجے میں آپ صلى الله عليه وسلم صرف چند ہی لوگوں کو راہ راست اور ایمان کامل کی دعوت دے سکے اور اتنے عرصے میں معدودے چند افراد کو تیار کرکے مقاصد رسالت سے آشنا کراسکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سرور دو عالم صلى الله عليه وسلم بعثت کے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور دعوت کی راہ میں انہیں ناکامی ہوئی! جبکہ بات یہ بالکل خلاف واقع اور غلط ہے۔
کہ آپ صلى الله عليه وسلم اس حال میں دنیا سے رخصت ہوگئے کہ اسلام کا دائرہ سرزمین حجاز تک محدود تھااور آپ صلى الله عليه وسلم کے وصال کے بعد متعدد نو مسلم عرب قبائل مرتد ہوگئے اور حالات اس قدر گھمبیر ہوئے کہ خدشہ تھا اسلام کا خاتمہ ہو۔ ایسے میں خلیفہ برحق حضرت ابوبکر صدیق ودیگر مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم اجمعین نے تلوار اٹھا کر اسلام اور بعثت کے اعلی مقاصد کے فروغ کے لیے مرتدین اور مانعین زکاۃ سے جہاد کیا۔ اس خطرناک چیلنج سے نمٹنے کے بعد ہمیشہ جہاد اور اسلام کی تبلیغ ان کا مطمح نظر رہا یہاں تک کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں وقت کے دو عظیم طاقتوں ایران اور روم کومسلمانوں کے ہاتھوں شکست ہوئی اور یوں ان کی سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو پوری دنیا میں دعوت دین کا موقع ملا اور انہوں نے اس وقت کی نصف سے زائد دنیا تک اسلام اور رسالت نبوی کا پیغام پہنچایا۔
یہ کیسا انصاف ہے کہ ان عظیم ہستیوں کو جنہوں نے اپنی جان ومال اسلام کے لیے قربان کیا، مورد الزام ٹھہرایا جائے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد احکامات خداوندی کو یکسرنظرانداز کرکے دنیوی مقاصد اور ذاتی اغراض کے حصول کے لیے فرامین نبوی کی خلاف ورزی کی ہے اور ظلم وخیانت کے مرتکب ہوئے ؟
مدینہ منورہ میں ایک ایسا ٹولہ بھی تھا جو بظاہر اسلام کا دعویدار تھا اور ان کا شمار مسلمانوں کی برادری میں ہوتاتھا جو کہ شر انگیزی، فتنہ پردازی، دشمنوں سے میل ملاپ، نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی اور جہادی مہموں میں عدم شرکت کی وجہ سے “منافق” قرار دیے گئے۔
اللہ تعالی نے متعدد آیات میں ان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرکے ان کی دورخی اور سازشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اسی بارے میں ارشاد الہی ہے: }وَيَحْلِفُونَ بِاللّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ{ اور وہ (اس قدر بزدل ہیں کہ) اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جو (اپنے نفاق کے ظاہر ہونے اور اس کے انجام سے) ڈرتے ہیں (اس لئے وہ بصورتِ تقیہ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتے ہیں) (توبہ- 56)
ایک دوسری جگہ آتاہے: {يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُل لاَّ تَعْتَذِرُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ}؛ ((اے مسلمانو!) وہ تم سے عذر خواہی کریں گے جب تم ان کی طرف (اس سفرِ تبوک سے) پلٹ کر جاؤ گے، (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے: بہانے مت بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے، ہمیں اﷲ نے تمہارے حالات سے باخبر کردیا ہے، اور اب (آئندہ) تمہارا عمل (دنیا میں بھی) اﷲ دیکھے گا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (دیکھے گا) پھر تم (آخرت میں بھی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں ان تمام (اعمال) سے خبردار فرما دے گا جو تم کیا کرتے تھے) (توبہ—94)
بعض حضرات عوام الناس کی لاعلمی اور نادانی کا غلط فائدہ اٹھا کر مندرجہ بالا آیات کے شان نزول اور معانی ومصداق میں تحریف کرتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا یہ آیات صحابہ کرام رضى الله عنهم کے بارے میں نازل ہوئی تھیں! اگر یہ لوگ اپنی نادانی کی وجہ سے ایسی حماقت کرتے ہیں تو ان کی اس تشریح کی کوئی بنیاد نہیں اور اس کی کوئی علمی قدر وقیمت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوچکی ہیں کہتا ہے کہ مراد صحابہ کرام رضى الله عنهم ہیں تو بلاشبہ یہ جاہلانہ بات اس شخص کے تعصب اور اسلام سے دشمنی کی علامت ہے۔ ایسے افراد نہیں چاہتے ہیں کہ حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کریں۔ یہ طریقہ صحابہ کرام رضى الله عنهم کے حق میں ستم اور واضح ظلم شمار ہوتاہے، درج ذیل آیات پر توجہ دیجیے: اللہ تعالی سورہ توبہ میں مؤمنوں اور منافقین کی حقیقت اس طرح بیان فرماتے ہیں: {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ ﴿١٠١﴾ وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠٢﴾ }؛ ( اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں (بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جملہ منافقین کا علم اور معرفت عطا کر دی گئی)۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ (دنیا ہی میں) عذاب دیں گے پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے* اور دوسرے وہ لو گ کہ (جنہوں نے) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو (غلطی سے) ملا جلا دیا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول فرمالے، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے). سورہ توبہ
سوال یہ ہے کہ ہجرت، انفاق فی سبیل اللہ، جہاد اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نصرت ومدد میں کون لوگ پیش پیش تھے؟ ان آیات کریمہ کی کوئی بھی تاویل کی جائے پھر بھی حضرات خلفاء راشدین، حضرت طلحہ، زبیر، ابوعبیدہ، عبدالرحمن بن عوف، سعد وسعید، ازواج مطہرات اور غزوہ بدر، احد، احزاب، صلح حدیبیہ وغزوہ تبوک میں شریک سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مہاجرین وانصار کی فہرست سے خارج نہیں کیا سکتا۔ یہی حضرات تو تھے جو ہر کار خیر اور ہر میدان جہاد میں پیش پیش تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے تھے۔
مدینہ کے منافقین جن کاسربراہ عبداللہ بن اْبی تھا موقع پرست، شرپسند اور اسلام کاسخت دشمن تھا۔ یہ بات ثابت ہے کہ یہ لوگ کسی غزوے میں آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ نہیں تھے اور اسلام کے خاطر کوئی بھی قربانی نہ دے سکے تھے ۔ عبداللہ بن ابی تین سو کے لگ بھگ آدمیوں کے ساتھ غزوہ احد میں شریک کے لیے نکلا مگر راستے ہی سے اپنے ساتھی منافقین سمیت واپس مدینہ بھاگ گیا۔ اس لیے صحابہ کرام رضى الله عنهم کا ان منافقوں سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔
آیات کے آخر میں اللہ تعالی کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو آپ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اگرچہ ان لوگوں کا ریکارڈ بہت خراب تھا اور ان کے جرائم سنگین قسم کے تھے پھر بھی آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کا دعوائے اسلام قبول فرمایا اور اللہ تعالی نے بھی ان کی مغفرت کا اعلان فرمادیا۔
بلاشبہ صحابہ کرام رضى الله عنهم معصوم نہیں تھے اور بشری فطرت کے تقاضوں کے پیش نظر بعض اوقات خطا یا گناہ کا ارتکاب کرتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالی کی رحمتوں سے ہمیشہ کے لیے دور رہے اور غفران الہی سے محروم رہے۔ قرآن پاک کہتا ہے صحابہ کرام رضى الله عنهم کی مغفرت ہوچکی ہے اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی ہے{لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ* وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ}(یقیناً اﷲ نے نبی (معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر (بھی) جنہوں نے (غزوۂ تبوک کی) مشکل گھڑی میں (بھی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کی اس (صورتِ حال) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق، نہایت مہربان ہے. اور ان تینوں شخصوں پر (بھی نظرِ رحمت فرما دی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اﷲ (کے عذاب) سے پناہ کا کوئی ٹھکانا نہیں بجز اس کی طرف (رجوع کے)، تب اﷲ ان پر لطف وکرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بیشک اﷲ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہے) (توبہ۔ 117-118)
مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں: اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر سابقین ومتاخرینِ صحابہ رضى الله عنهم میں سے کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ صحابی گناہ پر قائم نہیں رہے گا بلکہ اْسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی۔ اس صحابی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت، اسلام کی نصرت کے لیے شاندار خدمات اور اس کی نیکیوں کی برکت سے اللہ تعالی اْسے معاف فرمادے گا۔
“ان (صحابہ) میں سے کسی کا انتقال نہیں ہوتا مگر یہ کہ اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرماتاہے۔ اسی لیے کسی کو یہ کہنے کی اجازت نہیں کہ صحابہ کرام رضى الله عنهم کو فاسق یا ساقط العدالۃ (جن کی گواہی قبول نہیں ہوتی) قرار دے۔”
بعض لوگ غزوہ احد کے واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ کرام العیاذباللہ “مجرم” تھے حالانکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ} (بیشک جو لوگ تم میں سے اس دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے جب دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہو گئی تھیں تو انہیں محض شیطان نے پھسلا دیا تھا، ان کے کسی عمل کے باعث جس کے وہ مرتکب ہوئے، بیشک اللہ نے انہیں معاف فرما دیا، یقینا اللہ بہت بخشنے والا بڑے حلم والا ہے). (آل عمران-155)
بالکل صاف و واضح ہے کہ اللہ تعالی اس آیت میں بعض صحابہرضى الله عنهم کے لیے اعلان مغفرت فرماتا ہے۔ اس لیے اس آیت کی تاویل وتحریف اور صحابہ کرام رضى الله عنهم کو مجرم قرار دینا عقل ومنطق سے دور ہے۔ اسی طرح سارے صحابہ کرام رضى الله عنهم بشمول مہاجرین وانصار جنہوں نے مختلف غزوات میں آپ صلى الله عليه وسلم کے شانہ بہ شانہ جہاد کیا وہ بھی قرآن کی بشارت کے مستحق ہیں ۔ ایک مرتبہ حاطب بن ابی بلتعہ نے اپنے بعض ذاتی اغراض کے پیش نظر مکہ کے مشرکین کو خط کے ذریعہ آپ صلى الله عليه وسلم کے حملے سے آگاہ کرنا چاہا۔ لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کو پتہ چل گیا اور حرکت علی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں صحابہ کرام رضى الله عنهم کا ایک دستہ خط کو لیجانے والی خاتون کو گرفتار کرنے چلاگیا۔ اس موقع پر خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا بھی تھا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑادوں، اس نے خدا اور اس کے رسول سے خیانت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا: {انہ قد شہد بدراً ومایدریک یا عمر؟ لعلّ اللہ قد اطلع علی اھل البدر فقال: اعلموا ما شئتم فقد غفرت لکم} ترجمہ: اس (حاطب) نے غزوہ بدر میں شرکت کی ہے، اے عمر آپ کو کیا معلوم؟ شاید اہل بدر پر اللہ کا فلف وکرم ہے کہ فرمایا ہے: جو کرنا ہے کرلو۔ میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔
ایک دوسری روایت میں آتا ہے: (إنّ عبدا لحاطب جاء رسول‌الله یشكوحاطباً فقال : یا رسول الله لیدخلن حاطب النار، فقال رسول الله: «كذبت لایدخلها، فانه قد ظهر بدراً و الحدیبیه ») ترجمہ: حاطب کا ایک غلام آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس آکر حاطب سے شکایت کی اور کہا: یارسول اللہ! یقیناً حاطب جہنم ہی میں جائیگا۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم نے جھوٹ بولا، وہ جہنمی نہیں ہوسکتا چونکہ اس نے غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔ ان روایات سے بھی ثابت ہوگیا کہ چنانچہ کسی صحابی سے غلطی یا گناہ سرزد ہوتا تو اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوتی اور ان کے اچھے کارنموں کی برکت سے مغفرت الہی کے پورا مستحق قرار پاتے۔
بعض حضرات ولید بن عقبہ کی عدالت پر اعتراض کرتے ہیں اور قرآنی آیت: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ}؛ (اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ) (الحجرات-6) سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی، اگر وہ عادل تھے تو قرآن نے انہیں فاسق کیوں قرار دیا؟
اس اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ:
تمام قرآنی آیات اور صحیح روایات میں کسی بھی صحابی کے بارے میں “فسق” کی تصریح صرف ایک مقام پر موجود ہے۔ دوسری جانب بیشمارآیات واحادیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کی تصریح کرتی ہیں۔ اس لیے اتنی آیات واحادیث کو نظر انداز کرکے ایک ہی آیت کو لینا اور واویلا مچادینا کسی بھی طرح معقول نہیں ہے۔ نیز صرف ایک شخص کے بارے میں نازل ہونے والی آیت سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ سارے صحابہ کرام عادل تھے اور اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ جو حضرات صحابہ فتح مکہ کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب نہ رہنے کی وجہ سے شاید احکام سے کامل واقف نہیں تھے تو ان میں سے ایک کو فاسق کے عنوان سے یاد کیا گیا مگر بعد میں اسلام کی ترقی کے لیے شاندار خدمات اور عظیم کارناموں کی بدولت اللہ تعالی کی مغفرت اور رحمت بے کراں کے مستحق ہوئے۔ جیسا کہ امام شمس الدین احمد ذہبی (رح) اس بارے میں فرماتے ہیں: (و كان مع فسقه ـ و الله یسامحه ـ شجاعاً قائما بامر الجهاد)
ترجمہ: (اگر چہ وہ فسق کا مرتکب ہواتھا۔ اللہ تعالی اس سے درگذر فرمائے۔ لیکن بہادر شخص تھے اور جہاد کرتے تھے۔)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (كانت ولاية الولید الكوفه سنه خمس و عشرین ، و كان فی سنه ثمان و عشرین غزا أذر، و هو امیر القوم و عزل سنه تسع و عشرین)؛ ترجمہ: (سنہ 25 ہجری کو ولید کوفہ کے والی تھے۔ سنہ ۸۲ ہجری میں آپ کی قیادت میں مسلمانوں نے آذربائیجان والوں سے لڑائی کی۔ سنہ ۹۲ ھ۔ق میں آپ معزول ہوئے۔)
ان روایات سے یہی معلوم ہوتاہے کہ ولید پر صحابہ کرام کا اعتماد تھا ورنہ اسے اپنا والی اور مسلمانوں کے لشکر کا امیر مقرر نہ فرماتے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ولید بن عقبہ کو صدقات النبی اکٹھے کرنے پر مامور فرمایاتھا۔
ایک مقام پر ارشاد الہی ہے: {وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}؛ (اور دوسرے وہ لو گ کہ (جنہوں نے) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو (غلطی سے) ملا جلا دیا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول فرمالے، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے) (توبہ-۱۰۲) اللہ تعالی تہمت لگانے والوں کو بھی فاسق کہا ہے لیکن ان کو اپنی رحمتوں سے دور نہیں رکھا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتاہے: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ}؛ (اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں) (النور۔4)
دوسری بات یہ ہے کہ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالی فرماتاہے اگر کوئی فاسق خبر لیکر تمہارے پاس آئے تو اس کی تحقیق وتبیین کرو۔ فرمایا((فتبینوا) یہ نہیں کہا کہ (فلا تقبلوہ) کہ اس خبر کو ہرگز صحیح نہ مانو! اسی آیت سے علمائے علم اصول نے “خبر” (حدیث کی ایک قسم) کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔ فاسق کی خبر اور بات پر تحقیق ضروری ہے البتہ “عادل” کی بات بلا چوں وچرا اور تحقیق قبول کی جاسکتی ہے۔ اس کے با وجود حضرت ولید بن عقبہ رضى الله عنهم سے صرف دو روایتیں منقول ہیں جو ان کے اپنے بارے میں ہیں۔ دو روایت میں سے ایک روایت کی سند میں “عبداللہ ابوموسی ہمدانی” موجود ہے جو ضعیف راوی ہے اور اس کی روایت کا مفہوم دیگر روایات سے تضاد رکھتا ہے ۔ اسی لیے علماء نے اسے مسترد کیا ہے۔
ولید بن عقبہ کو نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے صدقات بنی مصطلق اکٹھے کرنے کے لیے حکم دیاتھا جس سے آپ صلى الله عليه وسلم کا ولید پر اعتماد ظاہر ہوتا ہے اور اس سے ابوموسی ھمدانی کی روایت کی بھی تردید ہوتی ہے۔
اس لیے ولید بن عقبہ کا ابتدائی عمل اور فسق جو مغفور و معفو ہے کا صحابہ کرام کی عدالت اور ان کے ذریعے اسلام کے احکام وشرایع لینے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ صحابہ کرام رضى الله عنهم ہی کے ذریعے دین دوسروں تک پہنچا اور مقام عدالت میں تمام صحابہ کرام رضى الله عنهم داخل ہیں۔

SunniOnline.us/urdu