- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

افغان مہاجرین کی وطن واپسی خوف وہراس کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے

molana31خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران میں ان کے چند سالہ قیام کو ملک اور صوبہ سیستان وبلوچستان کے لیے خیر وبرکت کا باعث قرار دیا۔ انہوں نے کہا اس عرصے میں افغان مہاجرین نے ہمارے لیے مسائل پیدا نہیں کیے بلکہ یہ ہمارے انتہائی محنت کش بھائی تھے جن کی واپسی سے بعض تعمیراتی کاموں میں خلل پیدا ہوچکاہے۔ اگر چہ میڈیا میں کچھ اور کہا جاتا ہے۔ بہر حال یہ فیصلہ حکومت کی طرف سے آیاہے۔ ہم نے بھی اپنے افغان بھائیوں کو اس حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا مشورہ دیا اور انہیں واپس افغانستان جانے کی ترغیب دی ہے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے بازاروں اور پبلک مقامات سے لوگوں کی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری اور ٹرکوں میں جانوروں کی طرح انہیں لوڈ کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا اس طرح کے اقدامات سے بازاروں میں خوف و ہراس پھیلتا ہے اور بعض مارکیٹس بند ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد مشکلات کا شکار ہوچکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا صرف شناختی کارڈ رکھنا ایرانی ہونے کی دلیل نہیں بلکہ اصل نژاد اور اصلیت ہے۔ بلوچستانی عوام جن کا تعلق مختلف قبائل سے ہے سب ایرانی ہیں افغانی یا پاکستانی نہیں ہیں۔ اگر ہمیں اس ملک سے جو ہمارا وطن ہے نکالاجائے تو ہم کہاں چلے جائیں؟ اگر کسی افغانی یا پاکستانی مہاجر ملک بدر ہوجائے تو افغانستان یا پاکستان چلا جائے گا لیکن اگر کسی ایرانی کو پکڑ کر ملک بدر کیا جائے تو وہ کہاں چلا جائے؟ اس کا وطن اور سب کچھ ایران ہے۔
دارالعلوم زاہدان کے سرپرست مولانا عبدالحمید نے حکومت کی جانب سے افراد کی شناخت معلوم کرنے کے لیے اپنائے گئے طریقہ کو غلط قرار دیتے ہوئے اس طرز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا بہت سارے شہریوں کی شہریت مشکوک قرار دی گئی ہے جس کی وجہ سے عوام شدید پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے تجویز دی قومیت کی شناخت کے لیے علاقے کے علمائے کرام اور عمائدین کا ایک کمیشن بنایا جائے تا کہ کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو۔

لوگوں کی آباء واجدادی جائیداد کو اس بہانے سے ضبط کرنا کہ ان کے کاغذات نہیں، حرام ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے عوام کی مشکلات میں سے ایک اور مشکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ایک سرکاری محکمے نے عوام کی صدیوں پرانی جائیداد کو ضبط کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو ہمارے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ حکام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سابق نظام (شاہ) کے دوران بعض مشکلات کی بنا پر اور تعلیم کی کمی کے باعث بہت سارے لوگ قومی شناختی کارڈ حاصل نہیں کرسکے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایرانی ہی نہیں ہیں۔
اس لیے کہ وہ کئی صدیوں سے یہاں آباد ہیں، ان کی جائیدادیں ہیں، زمینیں اور کنویں ہیں جو انہیں ان کے آباء واجداد سے ورثہ میں ملی ہیں لیکن انہوں نے کسی سرکاری محکمے میں ان کے رجسٹر کر انے کو ضروری نہیں سمجھا، سب کو معلوم تھا یہ جائیداد اور باغات انہیں کی ہیں، دشتیاری، کنارک، باہوکلات ودیگر علاقوں میں بے شمار زمینیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اب زراعت یا جنگلات کے محکمے کو یہ زمینیں ضبط کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کا حق حاصل نہیں۔ چار صدیوں سے یہ زمینیں ان لوگوں کی اور ان کی آباء واجداد کی ملکیت میں چلی آرہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران تو 30 سال پہلے معروض وجود میں آیا۔ ان جائیداد پر قبضہ بلا جواز اور حرام ہے۔ یہ حرکت متعلقہ محکموں کی زیادتی اور ظلم ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا اگر کاغذات نہ ہونے کی بنا پر کسی کی جائیداد پر قبضہ کیا جائے یا اسے غیر ایرانی قرار دیا جائے تو ان لوگوں کا کیا بنے گا جنہوں نے شادی کی ہے مگر اسے رجسٹرڈ نہیں کیا ہے؟ اس صوبے (سیستان وبلوچستان) کے اکثر لوگ جو گاؤں میں رہتے ہیں سرکاری دفاتر میں جاکر نکاح نامہ حاصل نہیں کرتے بلکہ اپنے علاقے کے علماء کی نکاح خوانی پر اکتفا کرتے ہیں۔
اسی طرح بہت سارے لوگوں کی زمینیں غیر رجسٹرڈ ہیں اور بعض نے قومی شناختی کارڈ لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے۔ حالانکہ وہ صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور انگریزوں سے لڑکر انہوں نے اپنے وطن سے دفاع کیا ہے۔ تو محض شناختی کارڈ کا ہونا یا نہ ہونا ایرانی ہونے اور نہ ہونے کی علامت نہیں ہے۔ البتہ سرکاری کاغذات کو اہمیت دینی چاہیے اور جائیداد کو رجسٹر کرنا چاہیے۔
ان افراد کو شناختی کارڈ دینا چاہیے نہ کہ انہیں ترک وطن پر مجبور کرکے ان کے شہری حقوق سے انہیں محروم رکھا جائے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اگر حکومت عدل وانصاف کا قیام چاہتی ہے، قومی ومسلکی تعصبات ختم کرنے کی خواہشمند ہے تو اسے مقامی لوگوں (چاہے بلوچ ہوں یا زابلی) کو سرکاری محکموں، سیکورٹی اداروں اور دیگر با اختیار شعبوں میں ملازمت وخدمت کا موقع دینا چاہیے۔ میں اللہ کو گواہ پکڑ کر کہتا ہوں کہ بعض صوبائی حکام قومی ومسلکی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب ایک مخصوص طبقے اور برادری کو اقتدار واختیار پر قابض بنایا جاتاہے تو عدل وانصاف کی امید کیسے رکھی جائے؟
انہوں نے مزید کہا بعض موقع پرست اور تنگ نظر اہلکاروں نے عجیب اقدام اٹھاتے ہوئے مختلف مقامات سے سنی علمائے کرام کی تقاریر کی سی ڈیز ضبط کرنے کا سلسلہ آغاز کیاہے۔
کس قانون اور جواز کے تحت یہ حرکت کی جار ہی ہے؟ شہر سب کے لیے پر امن ہونا چاہیے۔ ایسا نہین ہونا چاہیے کہ کوئی ایرانی شہری گھرسے نکلتے ہوئے خوف وہراس محسوس کرے کہ کہیں اس کی شناخت مشکوک قرار نہ پائے اور ناکردہ جرم کی سزا میں اسے ٹرکوں میں نہ ڈالا جائے۔ معصوم شہری کیوں پولیس سے خوف محسوس کرتے ہیں؟ پولیس کی ذمہ داری امن وامان کو یقینی بنانا ہے نہ یہ کہ الٹا عوام کو خوفزدہ کرکے دہشت پھیلائے۔ ہمارا خیال ہے قانون کا نفاذ حکمت ودرایت کے ساتھ ہونا چاہیے ورنہ مستقبل میں اس بات کا لحاظ نہ رکھنا متعلقہ حکام کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا اور اس وقت یہ لوگ شکوہ کرنا شروع کریں گے۔
آخر میں انہوں نے کہا شیعہ وسنی کے درمیان بھائی چارہ اور اتفاق باقی رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ بعض انتہا پسند عناصر قانون کا بہانہ بناکر اپنے طور پر عوام کو تنگ کریں اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کریں۔ ٹوپی لانے کے بجائے “سر” ہی کو اٹھائیں اور مزید مشکلات کا باعث بنیں جس سے رہبر اعلیٰ، حکام بالا ودیگر عوام پریشان ہوں۔ اس سلسلے میں جہاں تک ہوسکے ہم تعاون کے لیے تیار ہیں۔
امید ہے ہماری گزارشات متعلقہ حکام، گورنر اور پولیس کے ذمہ داروں تک پہنچ جائیں اور عوام کے لیے پیش آمدہ مسائل کا حل نکالا جائے۔
اس جمعے کے خطبے کے پہلے حصے میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کو واضح کردیا۔ انہوں نے کہا جس طرح اداء نماز وزکات، حج اور رمضان کا روزہ ہماری دینی ذمہ داری ہے اسی طرح معاشرے کی اصلاح (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ ہم سے سوال ہوگا کہ معاشرے کو گناہوں اور مفاسد سے پاک کرنے کے لیے ہم نے کیا کیا؟ حقوق اللہ اور حقوق العباد ضایع ہوتے ہوئے دیکھ کر ہم نے زبان کیوں نہ کھولی؟ ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے ہم نے عملی نہی عن المنکر کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ بْرائی کو دیکھتے ہوئے پھر بھی ہم خاموش ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری ہم ہی پر تو ہے۔ اس لیے ہمیں خود بھی اچھے کام کرکے برائیوں سے دور رہنا چاہیے دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینی چاہیے۔