- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ڈاکٹر احمد سیاد شہید کی زندگی پر ایک نظر

doktorممتاز عالم دین استاد احمد سیاد (بلوچ) شہید کا شمار اہل سنت والجماعت ایران کی ممتاز معاصر دینی ومذہبی شخصیات میں ہوتاہے۔ پیکر علم ونور کی زندگی کیسے گزری اور کہاں گزری؟ آپ کو کن کن دشواریوں کو سامنا کرنا پڑا؟ یہ سب کچھ جاننے کے لیے آپ کی ولادت باسعادت سے لیکر شیطانی قوتوں کے ہاتھوں ان کی شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز ہونے تک کی حیات پر ایک نظر ڈالیں گے۔

شہید ڈاکٹر کی پیدائش 1945ء کو “جنجک کاروان” نامی بستی میں ہوئی جو ضلع میناب اور بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع ہے۔ اسی وجہ سے جب مرحوم ڈاکٹر احمد سیاد پانچ سال کے تھے تو معاشی مجبوریوں کی پیش نظر ان کی پوری فیملی “عمان” منتقل ہوئی۔
عمان کے علاقے “سیف” میں دو سال تک قیام کے بعد آپ کا خاندان پاکستان کے صوبہ سندھ منتقل ہوا جہاں تین سال تک شہید ڈاکٹر فیملی سمیت ایک بستی میں مقیم رہے۔ پھر اندرون سندھ سے ہجرت کرکے آپ کے گھر والے کراچی آگئے۔ اس وقت “احمد” زندگی کی دس بہاریں گزار چکے تھے اور ذکاوت وذہانت اور عبادات کی طرف آپ کی رغبت کے آثار نمایاں طور پر نظر آرہے تھے جو آپ کے روشن مستقبل کا پتہ دے رہے تھے۔
شیخ عیسی محمودی سے قرآن پاک اور ابتدائی کتابوں کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کراچی کے ممتاز مدرسہ (باغیچہ) میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے پر کمر بستہ ہوئے۔ چار سال تک دینی و شرعی علوم کے چشموں سے علمی پیاس بجھانے کے بعد آپ واپس اپنے گاؤں “کاروان” تشریف لے گئے جہاں آپ نے فقہ کی بعض کتابیں اپنے ماموں “ملا شُکری” سے پڑھیں اور چار سال تک وہیں رہے۔
تنگ معاشی حالات نے ڈاکٹر احمد شہید کو اسفار کا ایک نیا سلسلہ آغاز کرنے آغاز پر مجبور کردیا۔ چنانچہ آپ قطر کے شہر دوحہ چلے گئے جہاں آپ ایک مسجد کے امام مقرر ہوئے۔ دو سال تک بطور امام خدمات سرانجام دینے کے بعد مسجد کے شیخ کے تعاون سے “احمد” اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مدینہ یونیورسٹی جاپہنچے۔ چارسال تک اعلی شعبے میں تعلیم حاصل کرکے آپ نے ایک شاندار علمی تحقیق پیش کی جس میں آپ نے “خصائص علی بن ابیطالب” نامی کتاب کی احادیث کی تخریج کی۔ بی اے کی ڈگڑی حاصل کرنے کے بعد آپ نے ایک انتہائی مشکل ٹیسٹ پاس کرکے اعلی تعلیم جاری رکھی۔ معروف کتاب “المعجم لابن العربی” کی احادیث کے حوالوں کی تخریج کرکے فن حدیث شریف میں ڈاکٹریٹ حاصل کرلی۔
اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ مذکورہ کتاب کی احادیث کی تخریج اور بعض احادیث کی سندوں اور راویوں کی شناخت کے لیے آپ کو عالم اسلام کی بڑی لائبریریوں کا چکر لگانا پڑا چنانچہ آپ نے تحقیقی مقالے کی تیاری میں استنبول (ترکی)، مصر، دیوبند اور لکھنو کا دورہ کیا۔
بیس سال تک وطن سے دور رہ کر شرعی علوم کے گلستانوں سے خوشہ چینی کے بعد آپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑے بڑے مناصب کی پیش کشوں کو ٹھکرا کر واپس وطن پہنچ گئے۔ 1985ء کو ڈاکٹر احمد سیاد شہید اس حال میں واپس آئے کہ ان کے دل احادیث نبوی کے نور سے منور تھا اور اپنی قوم کی علمی خدمت کا عزم لیے وطن آئے تھے۔ اسی جذبہ کی وجہ سے آپ نے اپنے گاؤں میں (جو زندگی کی بنیادی سہولیات پانی، بجلی، اور سڑک سے محروم تھا) ایک دینی ادارے کی بنیاد ڈالی جسے “معہد دارالسنۃ” کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس پسماندہ گاؤں میں آپ نے ایک جامع مسجد بھی تعمیر کروائی۔ آپ کی وطن واپسی کے دوسال بعد 1987ء میں ڈاکٹر سیاد تہران میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کے بعد آپ کو تہران کی معروف جیل “اوین”Evin کی کوٹھڑیوں میں ڈال دیاگیا۔ موقع غنیمت سمجھ کر آپ نے دوران قید قرآن پاک مکمل طور پر حفظ کرلیا۔ جب مرحوم ڈاکٹر کو اوین کے “قیدخانہ برائے علماء” میں لایا گیا تو انہیں شیعہ مذہب کی بنیادی کتابوں اور حدیث میں ان کی مرجع سمجھے جانے والی کتابوں کے مطالعہ کا سنہری موقع میسر آیا جہاں آپ نے تشیع کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیں۔
قید کے ابتدائی مہینے سخت سیکورٹی اور قید تنہائی میں گزارنے کے دوران ایک مرتبہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک خوبصورت اور وجیہ شخص آپ کے پاس آیا اور ان قرآنی آیات کی تلاوت کرکے چلاگیا (وربك الغفور ذو الرحمة لو يؤاخذهم بما كسبوا لعجل لهم العذاب بل لهم موعد لن يجدوا من دونه موئلا ….) و(لقد كذب رسل من قبلك) (إن الله يدافع عن الذين آمنوا إن الله لا يحب كل خوان كفور…) شہید ڈاکٹر سیاد کا کہناتھا اس خواب سے پہلے میں بڑا پریشان تھا مگر اس کے بعد مجھے انتہائی قلبی اطمینان حاصل ہوا۔
بابرکت زندگی کے پانچ سال پس دیوار زنداں گزارنے اور ناکردہ جرم کی سزا بھگتنے کے بعد 1992ء میں آپ جیل سے رہا ہوگئے۔ رہائی کے بعد آپ نے اپنی سرگرمیاں معہد دارالسنۃ میں جاری رکھتے ہوئے مسلمان بچوں کی تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کردی۔ آپ کے مدرسے کی شہرت عام ہوگئی اور اس بار ایران کے کونے کونے سے طلباء کا ایک جم غفیر معہد دارالسنۃ میں اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آپہنچا۔
ڈاکٹر احمد سیاد انتہائی نیک اور تکلفات سے بیزار شخص تھے۔ آپ پوری طرح سنت نبوی ۔علی صاحبہا الصلوۃ والسلام۔ پر عمل پیرا تھے۔ سادہ زیستی، کم گوئی، ہر قسم کے تکلف سے دوری اور استغناء آپ کی خصوصیات میں سے تھے۔ بغیر سوال پوچھے آپ ہرگز بات شروع نہ فرماتے۔ آپ کا جواب ہمیشہ واضح اور مختصر الفاظ میں ہوتا۔ کسی کو اپنے استقبال میں کھڑے ہونے اور ہاتھ چومنے کی اجازت نہ دیتے۔
ایک مرتبہ کسی دور دراز علاقے سے ایک وفد آپ سے ملنے آیا۔ انہیں معلوم ہوا ڈاکٹر صاحب گھر پر نہیں ہیں تو کسی باغ کی طرف چلے گئے جہاں انہیں ایک بوڑھا شخص نظر آیا جو زمین میں کام کررہا تھا۔ انہوں نے پوچھا ڈاکٹر احمد کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا احمد میرا نام ہے! دور سے آنے والے مہمان ڈاکٹر صاحب کو اس حالت میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔
آپ کی زبان سے کبھی کسی کے بارے میں غلط بات نہیں سنی گئی۔ جو حضرات ان سے علمی اختلاف رکھتے تھے ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتے تھے۔ سوموار اور جمعرات کے روز ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔

ڈاکٹر سیاد کی شہادت
ڈاکٹر صاحب کے رشتہ داروں اور دوستوں نے آپ کی قید سے رہائی کو نئی زندگی قرار دیکر آپ کو ایران چھوڑنے کا مشورہ دیا جو اپنے مسلکی مخالفین کو برداشت کرنے کی قوت سے عاری ہے۔
لیکن مرحوم ڈاکٹر صاحب نے انکار کرکے یہ جواب دیا: «قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا»۔
دبئی میں ڈاکٹر صاحب کے بعض رشتے دار رہتے ہیں جن سے ملنے کے لیے آپ امارات تشریف لے گئے۔ پچاس دن وہاں قیام کے بعد آپ ہوائی جہاز پر بندرعباس (ایران کے جنوبی علاقے کی معروف بندرگاہ) آئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ایرانی وزارت انٹیلی جنس کے ایک شدت پسند دھڑے نے معروف سیاسی ومذہبی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس دوران متعدد رہ نما ان وحشیوں کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔ حتی کہ بعض رہ نماؤں کو زندہ جلادیا گیا۔
ڈاکٹر سیاد کے ایک رشتہ دار ان کی شہادت کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں: “میں بندرعباس ایئرپورٹ پر آپ کی آمد کا انتظار کررہا تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب آئے میں نے دیکھا دو اور نامعلوم افراد ان کے ساتھ بات کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ جب میں ان کے قریب پہنچا اور سلام کیا تو مجہول افراد نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے کہا تم یہاں انتظار کرو، تھوڑی دیر میں ہم واپس آئیں گے۔
“تھوڑی دیر” تین دنوں تک طویل ہوگئی۔ تین دن کے بعد ایک بار انہیں ٹیلیفون پر بات کرنے کی اجازت ملی مگر جب پوچھا گیا آپ کہاں ہیں؟ تو کال کاٹ دی گئی۔ یہاں تک کہ اطلاع آئی میناب شہر سے آپ کی لاش برآمد ہوئی۔
ڈاکٹر احمد سیاد شہید کی شہادت کی خبر دنیا کی معتبر نیوز ایجنسیوں سے نشر ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے سانحہ شہادت نے اہل سنت والجماعت ایران اور ان کے تلامذہ ورشتہ داروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپ کی شہادت کی خبر سن کر متعلقین وتلامذہ سمیت متعدد سنی مسلمان آپ کے گھر کے گرد حلقہ زن ہوئے اور ممتاز عالم دین کے فراغ میں آنسو بہاتے رہے۔
زندگی کی دشواریوں اور دعوت وتعلیم کے مراحل سے گزرنے والے ڈاکٹر احمد سیاد کو بارہ رمضان، شب جمعہ (1995) میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں دفنا دیا گیا۔ آپ کی قبر مبارک “خنجک” گاؤں میں واقع ہے جو آپ کا آبائی علاقہ ہے۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ واسکنہ فسیح جناتہ