- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

‘مناصب کی تقسیم مسلک اور زبان کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے’

molana21“صدر مملکت مسٹر احمدی نژاد اور اسلامی جمہوریہ ایران سے توقع ہے کہ عوام اور قوم کے ہر فرد کو برابر کے حقوق دینے کی کوشش کریں،” بعض قومیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے امتیازی سلوک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے یہ باتیں کہیں۔

انہوں نے مزید کہا اسلامی قوانین اور دین مبین اسلام کے احکامات میں سے ایک اہم رکن عدل وانصاف کی فراہمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔ انصاف ہی کی بدولت اللہ تعالی نے انہیں سیاسی ومعنوی کامیابیاں نصیب فرمائی۔
صدر مملکت مسٹر احمدی نژاد کے حالیہ دورہ سیستان وبلوچستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے کہا زابل سیمنٹ کی فیکڑی کا افتتاح ہمارے لیے باعث مسرت ہے۔ یہ کارخانہ سرکاری نہیں ہے بلکہ ایک نجی فیکٹری ہے۔ صوبہ میں کل تین سیمنٹ فیکٹریاں ہیں؛ خاش سیمنٹ فیکٹری، جنوبی علاقوں کی سیمنٹ فیکٹری اور تیسرا کارخانہ یہی ہے جو حال ہی میں اس کا افتتاح ہوا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مفید سرمایہ کاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صدر احمدی نژاد کی یہ بات کہ ”جو نجی شعبوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے، کوئی کارخانہ بناتا ہے تو اس کی حمایت کرنی چاہیے” کو مثبت قرار دیکر اس کو سراہا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ غیر قانونی روزگار اور ناجائز تجارت سے اجتناب کرکے اس طرح کی قانونی سرمایہ کاری میں حصہ لیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا حکومت سے ہمیشہ ہمارا مطالبہ چلا آرہا ہے کہ مسلکی و قومی امتیازی رویوں سے مقابلہ کرے، عدل وانصاف کی فراہمی اور امتیازی سلوک کا خاتمہ حکومت کی شرعی ذمہ داری ہے۔

معاشی مسائل کا حل؛ انفاق فی سبیل اللہ

ایرانی اہل سنت کی سب سے بڑی مسجد (جامع مسجد مکی) کے خطیب نے اپنے خطبے کے پہلے حصے میں انفاق اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت واہمیت کے بارے میں گفتگو کی۔ بنی نوع بشر کے ساتھ ہمدردی اور اس کی مالی معاونت کو آپ نے اسلامی تعلیمات کا فائدہ مند درس اور حکم قرار دے کر اسے اخلاق الہی کی ایک جھلک قرار دی۔
انہوں نے کہا اسلامی تعلیمات اوامر واحکامات ہوں یا نواہی ومحرمات سب انسانیت کی تربیت اور اسے عزت سے نوازنے کے لیے ہیں۔ ان نورانی تعلیمات پر جتنا زیادہ عمل کیا جائے اتنا ہی زیادہ قرب الہی حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی روزی دینے والا (رزاق) ہے اور ساری مخلوقات کو رزق دیتا ہے۔ اس الہی صفت کی مشابہت حاصل کرنے کے لیے سخاوت سے کام لینا پڑے گا۔ عفو وبخشش اور سخاوت اخلاق خداوندی ہے۔
موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا سخاوت کا مطلب یہ نہیں کہ جب پیسے زیادہ ہوں تب انفاق کیا جائے۔ بلکہ تھوڑے مال اور پیسے سے بھی یہ سعادت حاصل کی جاسکتی ہے، بعض اوقات کم مال والے کا انفاق حقیقی سخاوت سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آتاہے: «اتق اللہ ولو بشق تمرۃ» اللہ تعالی سے ڈرو اگر چہ یہ تقوا کجھور کے ایک ٹکڑے کے انفاق سے ہو۔
اللہ تعالی نے معاشرے کے ایک طبقہ کو غریب اور محتاج بنایا ہے تا کہ اس طرح مالدار لوگوں کا امتحان لیا جائے کہ کیا وہ نادار غریبوں کی مدد کرتے ہیں کہ نہیں؟
کمیونیزم نے مالداروں اور ذاتی جائیداد کے خاتمے کی سرتوڑ کوشش کی مگر ناکام ہوا۔ دراصل یہ سسٹم اللہ تعالی کی اصلی اور طبعی سنت سے مقابلہ کرنا چاہتاتھا تو اس کی شکست یقینی بات تھی۔
غریبوں اور نادار لوگوں کی مالی مدد پر زور دیتے ہوئے آپ نے ایک حدیث نقل کی جس کامفہوم یہ ہے کہ دیا ہوا مال جو غریبوں پر خرچ ہوچکاہے ہرگز رائیگان نہیں جائے گا بلکہ اللہ تعالی صدقات کا بدلہ دیں گے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں برکت اور بڑھوتری آتی ہے۔ انفاق ہی کے ذریعے معاشرے کے معاشی مسائل و مشکلات میں بڑی حد تک کمی آتی ہے۔
مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے کہا یہ ظلم ہے کہ مال وثروت کو ذخیرہ کرکے بینکوں میں محفوظ کیا جائے مگر اللہ کی راہ میں نفقہ سے اجتناب کرکے بخل کا مظاہرہ کیا جائے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے انفاق کرنے پر تاکید کی ہے۔ ایک جگہ آتاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آپہنچے جب کوئی دوستی، کاروبار اور شفاعت کام نہیں آئے گی۔ البتہ شفاعت وسفارش سے مقصد بغیر اجازت کی شفاعت ہے۔ تو اس فانی دنیا میں انفاق فی سبیل اللہ، دینی مدارس، مساجد، ہسپتالوں، پلوں وغیرہ کی تعمیر سے آخرت اور سختیوں کے دن کے لیے کوئی توشہ تیار کرنا چاہیے۔