- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

’فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنا ہوگا‘

barakمقبوضہ بیت المقدس (بی بی سی اردو) اسرائیل کے وزیرِِ دفاع ایہود باراک نے کہا ہے کہ اسرائیل کو ہر صورت میں فلسطینیوں کو حق حکمرانی کی اجازت دینا ہوگی اور اسے اچھا لگے یا نہ لگے لیکن مستقبل میں فلسطینیوں کے لیے الگ ریاست بنے گی۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع ایہود باراک نے یہ بیان اپنے ملک کے یاد گاری دن کے موقع پر دیا ہے جو فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
اسرائیل کے فوجی ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دنیا اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے اور نہ ہی ہم سال دو ہزار دس میں اسے بدل سکتے ہیں کہ اسرائیل دوسرے لوگوں پر مزید کئی عشروں تک حکمرانی کرے۔
ان کے بقول خواہ آپ کو اچھا لگے یا نہیں لیکن اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ فلسطینیوں کو اپنے اوپر خود حکومت کرنے دی جائے۔
ایہود براک اسرائیلی فوج کے اعلیٰ اہلکار رہ چکے ہیں اور ان دنوں حکمران اتحاد میں شامل لیبر پارٹی کے سربراہ ہیں۔
یروشلم کے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں حالیہ تناؤ کا ذکر کرتے اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کچھ ایسی چیزیں کیں جن پر وہ پورا نہیں اترے جیسے یہودی بستیوں کی تعمیر کو دس مہینوں تک معطل کرنے پر رضامند ہونا اور اس اصول کو تسلیم کرنے کی طرف پیش رفت کرنا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے الگ الگ ریاستیں ہونی چاہییں۔
تاہم ان کے بقول ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے کیونکہ امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوری اسرائیل کے لیے اچھی نہیں ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے کے مطالبے کو نہیں مانیں گے اور ان کے بقول یہ مطالبہ خطے میں امن کی بحالی میں رکاوٹ ہے۔انہوں نے فلسطینی قیادت سے کہا کہ وہ کسی پیشگی شرائط کے بغیر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرے۔
خیال رہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے چند دن پہلے ہی اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کرے اور اس مطالبے کو بھی دہرایا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر فوری بند کی جائے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل مشرقی یروشلم کے معاملے پر مذاکرات کے حتمی دور میں تو بات کرسکتا ہے لیکن اسے مذاکرات شروع کرنے کے لیے پیشگی شرط کے طور پر تسلیم نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ امریکہ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بالواسطہ بات چیت شروع کرانے کی کوششیں کررہا ہے تاہم یہودی آبادکاری کے نئے اسرائیلی منصوبوں کی وجہ سے یہ عمل شروع نہیں ہوسکا ہے۔