- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں مسجد کی توہین

desecration-mosqueمقبوضہ بیت المقدس (ایجنسیاں) مقبوضہ مغربی کنارے میں باہر سے لاکر زبردستی بسائے یہودی آبادکاروں نے ایک مسجد کی توہین کی ہے جبکہ اسرائیل کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ صہیونی ریاست پر مغربی کنارے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے سے متعلق نئے حکم نامے کو واپس لینے کے لیے دباٶ ڈالے۔

اسرائیلی فوج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بعض نامعلوم شرپسندوں نے مغربی کنارے کے گاٶں میں ایک مسجد کی دیواروں پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا عبرانی میں نام لکھ کراس کے ساتھ یہود کی علامت نجمہ داٶد بنایا ہے۔یہودی شرپسندوں نے عربوں کے خلاف عبرانی زبان میں توہین آمیز نعرے بھی لکھے ہیں اورمسجد کی دیواروں پرپینٹ کر دیا ہے.
فلسطینی اور اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ مشتبہ شرپسندوں کے ہاتھوں مسجد کی توہین کا واقعہ مغربی کنارے کے شہرنابلس کے قریب واقع گاوں حوارا میں پیش آیا ہے جہاں شرپسندوں نے مسجد کے باہر کھڑی دوکاروں کو بھی نذرآتش کردیا۔فلسطینی سکیورٹی ذرائع نے یہودی آبادکاروں کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
یہودی آبادکاروں کے حملے کے بعد اسرائیلی فوجی گاٶں میں آگئے اور انہوں نے مسجد کی دیوارنجمہ داٶد کی علامت کو مٹادیا۔اس دوران انہوں نے صحافیوں کو مسجد کے قریب نہیں آنے دیا اورانہیں تصویریں بنانے سے بھی منع کردیا گیا۔
گذشتہ سال دسمبر میں بھی یہودی آبادکاروں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں مساجد اور قرآن مجید کی توہین کی تھی اور دیواروں پر پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف اہانت آمیز عبارتیں لکھ دی تھیں.الخلیل میں ایک ہزار سے زیادہ یہودیوں نے فلسطینیوں کے گھروں پر پتھراٶ کیا تھا جس سے تیرہ افراد زخمی ہو گئے تھے.انتہا پسند یہودیوں نے مسلمانوں کے ایک قبرستان کو بھی نقصان پہنچایا تھا.

فلسطینی ”درانداز”

درایں اثناء اسرائیل کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے عالمی برادری پرزوردیا ہے کہ وہ صہیونی ریاست پراُس حکم نامے کو واپس لینے کے لیے دباٶڈالے جس کے تحت ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔
حاموکڈ مرکز برائے دفاع افراد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے پرمکمل پابندی عاید کی گئی ہے اور اس کی خلاف ورزی کو پورے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی قراردیا گیا ہے۔
اس گروپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”ہم کنونشن کی فریق اور اس کی توثیق کرنے والی تمام ریاستوں پرزوردیتے ہیں کہ وہ اسرائیلی فوج کے حکم نامے کو منسوخ کرانے کے لیے فوری اقدام کریں”۔
اسرائیلی فوج کے سابق حکم نامے میں ترمیم کرکے منگل کو ایک نیا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں ”درانداز” کی تعریف کا دائرہ کاروسیع کیا گیا ہے اور اس میں ہر اس شخص کو درانداز قراردیا گیا ہے جس کے پاس اجازت نامہ یا پرمٹ نہیں ہوگا لیکن اس میں یہ بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس سے کس قسم کی دستاویزمراد ہے۔
اس سے پہلے اسرائیل کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سات گروپوں نے کہا ہے کہ ”حکم نامے کونظری طور پرایسے وسیع معنی پہنادیے گئے ہیں اور فوج کو اس انداز میں کارروائی کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ پورے مقبوضہ مغربی کنارے کو فلسطینیوں سے خالی کراسکتی ہے”۔
اس حکم نامے پر 13اکتوبر 2009ء کو دست خط کیے گئے تھے لیکن یہ منگل 13اپریل سے نافذالعمل ہوا ہے اور اسے قابض فوجی حکام پہلے مشتہر بھی نہیں کیا تھا جبکہ اس کا انکشاف حالیہ دنوں میں انسانی حقوق کے گروپوں نے کیا ہے۔
حاموکڈ کا کہنا ہے کہ 1967ء کی چھے روزہ جنگ میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطینیوں کوان کی اپنی سرزمین اور اپنے ہی گھروں میں ”درانداز”اور”غیرقانونی مکین” قراردیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ نئے حکم نامے کا مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں پراطلاق کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اس کا اطلاق صرف اور صرف فلسطینیوں کے خلاف کیا جائے گا۔
فلسطینی وزیراعظم سلام فیاض نے گذشتہ روز ایک بیان میں اس حکم نامے کو غیر قانونی قراردیا ہے جبکہ بائیس ممالک پر مشتمل عرب لیگ نے فلسطینیوں پر زوردیا ہے کہ وہ اس کو ماننے سے انکار کردیں۔عرب لیگ اس مسئلے پراپنا ہنگامی اجلاس بلانے پر بھی غور کررہی ہے۔