- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ایرانی اہل سنت کا مسلح جد وجہد کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں، مولانا عبدالحمید

molana27خطیب اہل سنت زاہدان نے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں عبدالمالک ریکی کی گرفتاری سے یہ امید ظاہر کی کہ اس شخص کی گرفتاری سے خطے میں امن کی صورتحال بہتر ہوجائے اور امن وامان کے سلسلے میں پائی جانے والی تشویش کا خاتمہ ہو۔

انہوں نے کہا امن کی بحالی ایک انتہائی اہم امر ہے جو سب کے مفاد میں ہے۔ بدامنی پھیلانا، ناحق قتل کرنا ، راستے بند کرنا، دھماکے کرانا اور اس جیسے کاموں کا نقصان سب کو پہنچتا ہے اس لیے سب کو چاہیے امن کا گراف بڑھانے اور اس کے دوام کے لیے کوشش کریں۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے مزید کہا ریگی گروپ سے وابستہ افراد متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلان کے مطابق ملک واپس آسکتے ہیں اور امان نامہ لیکر عام زندگی گزارتے ہوئے مثبت سرگرمیوں کا آغاز کرسکتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سنی عوام کا انتہاپسند تنظیموں کی جانب مائل ہونے کی پرزور نفی کی۔ انہوں نے واضح کیا سنی برادری کا راستہ ان لوگوں سے بالکل الگ ہے جو مسلح کاروائیوں کے ذریعہ قتل وغارت اور رہ زنی کرتے ہیں۔ ہر سنی مسلمان کی خواہش ہے کہ پرامن زندگی گزارے، اہل سنت والجماعت اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی چلی آرہی ہے جو قومی انتخابات میں حصہ لینے کے ذریعہ اسے ثابت بھی کرچکی ہے۔ سنی عوام قانونی اور منطقی راستے سے اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں نہ مسلح کاروائیوں کے ذریعہ۔
شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید نے بعض جاہل لوگوں کے کردار پر افسوس کا اظہار کیا جو زاہدان کے سنی عوام کو اشتعال دلاکر عبدالمالک ریکی کی گرفتاری کو ان کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایسے حلقوں کو کوتاہ فکر اور بے وقوف قرار دیتے ہوئے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے اس قول سے استناد کیا جس میں انہوں نے زاہدان کے عوام کو “شریف اور سرحدوں کے غیور محافظ” کہاتھا۔ انہوں نے کہا ہر کوئی اپنے عمل کا جوابدہ ہے اور کسی مجرم کی سزا صرف اسے بھگتنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کسی بے وقوف اور نادان شخص کی باتوں کو اپنے خیال میں نہ لائیے جو تمہیں مشتعل کرنا چاہتاہے۔
ایسے جاہل لوگوں کی حرکتوں کو ان کی حماقت اور نادانی پر محمول کیجیے۔ ہر قوم اور گروہ میں اچھے لوگوں کے علاوہ برے افراد بھی ہوتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اعتدال اور میانہ روی کو علمائے کرام، دینی مدارس، عصری علوم کے حاملین اور عام سنیوں کا طریقہ اور راستہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا ہم اپنے حقوق کے مطالبے کیلیے مسلح جد وجہد کے حق میں ہیں نہ ہی اس سلسلے میں سکوت اور لاپروا ہی کو جائز سمجھتے ہیں جو تفریط کے زمرے میں آتاہے۔
بلکہ ہمارا راستہ درمیانہ ہے اور ہمیشہ ہم اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے قانونی طریقے سے جد وجہد کررہے ہیں۔ ہم علاقے میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا جس طرح اتحاد ایک ضروری شی ہے اسی طرح امن وامان بھی بنیادی ضرورت اور اہمیت کے حامل مسئلہ ہے۔ اس لیے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو چاہیے اتحاد اور امن کے استحکام کے لیے کوشش کریں۔
ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا جب ہم امن کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سنی عوام اپنے حقوق اور مطالبے حاصل کرچکے ہیں۔ حکمرانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہمارے مسائل حل کرکے اس حوالے سے جوابدہ ہوں۔
شورائے مدارس اہل سنت صوبہ سیستان وبلوچستان کے سرپرست اعلی نے زور دیتے ہوئے کہا ہمارے مدارس میں کسی قسم کی انتہاپسندی اور تشدد والے رجحانات نہیں پائے جاتے۔ ہمارا کام تعلیمی وثقافتی ہے۔ یہاں اللہ تعالی کی کتاب اور سنت نبوی کی تعلیم دی جاتی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے واضح کیا حکومت کے ہاتھوں گرفتار افراد کا اہل علم اور دینی مدارس سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ وہ خود اپنے کردار کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا دینی مدارس سے وابستہ علمائے کرام اور طلبہ کا قانون توڑنے والوں سے تعاون پر مبنی کوئی تعلق نہیں ہے۔ بالفرض اگر ایسا کوئی کیس سامنے آ بهی جائے تو دینی مدارس کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ جس طرح کسی یونیورسٹی کا طالبعلم جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس یونیورسٹی یا کالج کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دینی مدارس بھی ایسے لوگوں کے کرتوتوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہمیں یک رنگی ویک رخی، سچائی اور خدا وآخرت پر ایمان کا خیال رکھتے ہوئے بات کرنی چاہیے۔
جامع مسجد مکی کے خطیب نے حکمران طبقے سے مطالبہ کیا وہ مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں اور حکام کو بحرانوں کی اصل وجوہات واسباب جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
معلول اور مشکل سے لڑنے کے علاوہ اصل سبب اور مرض کا علاج بھی کرنا چاہیے۔
اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے مولاناعبدالحمید نے مزید کہا امتیازی سلوک اور بے انصافی، غربت، بے روزگاری، جہالت اور تعلیم کے فقدان سے مقابلہ کرنا چاہیے، تعلیمی اداروں اور محکموں کی ذمہ داریاں مقامی لوگوں کو سونپنا چاہیے۔ ترقی کیلیے عوام کی یکجہتی و تعاون از حد ضروری ہے۔ بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے اقدامات اٹھانا چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے “ہفتہ اتحاد” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ایک ہفتہ کو ایسا نام دینا اچھا اقدام ہے لیکن اتحاد کی بات ایک ہفتہ تک خاص نہیں ہونی چاہیے۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی نبوت کو قبائلی اختلافات اور لڑائیوں کے خاتمہ کے لیے ایک اچھا آغاز قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا مختلف مسلم فرقوں، قومیتوں اور اسلامی ملکوں کے لیے اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ شیعہ، سنی اور مختلف اقوام کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ اپنے مخالف فرقے کی مقدسات کی گستاخی سے بچنا چاہیے۔
آخر میں انہوں نے لوگوں کو تاکید سے کہا بازاروں، محکموں اور مسجدوں میں بھائی چارے کاخیال رکھیں جو علاقے کی ضرورت ہے۔