- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اصلاح معاشرہ کا دارومدار گھر کی اصلاح پرہے

molanaahmadجامع مسجد مکی زاہدان کے نائب خطیب مولانا احمد نے اس جمعے کو قرآنی آیت {یا ایھا الذین آمنوا ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا} کی تشریح کرتے ہوئے اپنے بیان کی بنیاد اسی آیت کو بنایا۔ انہوں نے کہا خدا پر ایمان لاکر ہم نے رب سے معاہدہ کیا ہے۔

جب ہم تقوا اور پرہیزکاری اپنی زندگی میں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ حق اور صحیح راستے کی پہچان ہمارے لیے آسان فرما دیں گے۔ جس طرح ٹریفک کے اشارے اور سڑکوں کے نشانات کی مدد سے ہم آسانی سے اپنی منزل کے طرف آگے بڑھتے ہیں اسی طرح تقوا کے ذریعہ ہم بآسانی اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکیں گے۔ متقی شخص کا دوسرا انعام مغفرت ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرماتاہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے {ومن یکفر عنکم سیئاتکم}۔ قرآن کی روسے پرہیزکار کا تیسرا انعام ہے گناہوں کی مغفرت {ویغفرلکم} اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے:{واللہ ذوالفضل العظیم} خالق بڑے احسان اور فضل والے ہیں اور متقی لوگوں کو اپنے خزانہ فضل وکرم سے نوازتے ہیں۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ایک مرتبہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوٹا بھر کر وضو کے لیے پانی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک آپ کے سرپر رکھ کر فرمایا {اللہم فقھّھ فی الدین} اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ نصیب فرما۔ اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم دین اور فہم قرآن نصیب فرمایا۔ چنانچہ آپ رئیس المفسرین کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق(رض) کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے اور کم عمر ہونے کے باوجود خلیفہ ثانی آپ کو اپنے قریب بٹھا تے تھے اور فرماتے تھے ابن عباس قرآن میں سب سے زیادہ صاحب علم ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور پوچھا( رجل قلیل العمل قلیل الذنوب) ایک فرد کم عمل کرتاہے مگر گناہ بھی کم ہی کرتاہے، فرائض پر عمل پیرا ہوتا ہے مگر نوافل زیادہ نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف (رجل کثیر العمل کثیر الذنوب) نیک اعمال بہت کرتاہے لیکن گناہ بھی کم نہیں کرتا۔ نوافل وغیرہ کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے گناہ کا ارتکاب بھی کرتا ہے۔ مسجد میں نماز پڑھتا ہے باہر آکر غیبت، جھوٹ اور ظلم جیسے گناہ اس سے سرزد ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میںآپ کے خیال میں ان دومیں سے کون زیادہ کامیاب ہے؟ آپ نے جواب دیا:{لا اعدل بالسلام} میرے نزدیک یہ برابر نہیں ہیں۔ ایک بیمار دوسرا تندرست ہے۔ اگرچہ دوائیاں بہت استعمال کرتاہے مگر اس کا علاج نہیں ہوسکتا۔ کامیابی کی راہ صرف گناہوں سے دوری اور اجتناب ہے۔
جامع مسجد مکی کے نائب خطیب نے گناہوں سے نجات حاصل کرنے کے چار طریقے بتاتے ہوئے کہا نجات کا پہلا راستہ گھر کے ماحول کو ٹھیک کرناہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیاتھا اپنے قریبی رشتہ داروں اور عزیزوں کو خصوصی طور پر دین کی دعوت دیدیں۔ اگر بیوی صالحہ ہو تو بچے بھی اصلاح ہوں گے۔ ماں کی دینداری، عفت، عبادت اور اچھے اخلاق کو بچوں کی اصلاح اور گھر کے ماحول کو ٹھیک بنانے میں کلیدی کردار حاصل ہے۔ گھر کے ماحول کو اسلامی اور مناسب بنانے کے لیے گھروں میں تعلیم کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ بچوں کو بزرگوں کے حالات و واقعات سے آشنا کرائیں۔ بیکار ڈائجسٹ، میگزین اور پزل حل کرنے کے بجائے مفید کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔
دوسرا طریقہ احتساب ومحاسبہ کا ہے۔ روزانہ سونے سے پہلے اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔
ہمیں معلوم کرنا چاہیے پورے دن کتنے گناہ ہم سے سرزد ہوئے اور کتنے نیک کام ہم نے کیے۔ یہ تیسری راہ ہے گناہوں سے استغفار کریں اور گناہ کا اثر مٹادیں۔ جس طرح میلے کپڑوں کو صابون وغیرہ سے صاف کیا جاتاہے اسی طرح جب ہم اپنے اعضاء وجوارح سے گناہ کرتے ہیں تو استغفار اور توبہ سے ہم اپنے جسم کو صاف کراسکتے ہیں اور ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ ہمارے اعضاء وجوارح گناہ کے عادی بن جائیں اور لاپروار ہی سے گناہ کرتے کرتے تباہی کی کھائی میں گر جائیں۔ ارشاد نبوی ہے میں روزانہ سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں حالانکہ آپ (ص) معصوم ہیں مگر امت کی اصلاح وتعلیم کے لیے ایسا فرماتے تھے۔
چھوتا طریقہ یہ ہے کہ حق دار کا حق ادا کیا جائے۔ توبہ اور گناہ پر نادم ہونے کے علاوہ اگر کسی کا حق، مال وغیرہ ہمارے ذمہ میں ہے تو اسے پورا کرنا چاہیے۔ کسی کو اس کے حق سے محروم کرنا خود ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ بہت سارے تارکین وطن اور ہجرت کرنے والے افراد یہاں(ایران) کام کرتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں ان کاحق چھیننا بڑا ظلم ہے ان کے حقوق انہیں ملنے چاہییں کوئی یہ نہ سوچے کہ مہاجر مزدوروں کی کوئی نہیں سنتا۔
مولانا احمد ناروئی نے مزید کہا اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے قیامت کے دن جب ہم بے بس ہوجائیں کے۔ اس دن سے ڈرنا چاہیے جب یہ فرمان آتا ہے:(وامتازوا الیوم ایھا المجرمون) اے گناہ کارو! جنتی اور نیک لوگوں سے الگ ہوجاؤ۔ کہیں مجرموں کی صف میں ہمیں نہ گھسیٹا جائے۔
نائب خطیب جامع مسجد مکی نے اپنے بیان کے آخر میں پاک ایران اور ایران افغانستان بارڈر کی بندش کے حوالے سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا صوبے (سیستان وبلوچستان) کی آبادی کی ایک بڑی تعداد کا واحد ذریعہ معاش یہی بارڈر ہے جو تجارت اور کاروبار کے ذریعے اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔ لیکن ایک عرصہ سے یہ بارڈرز بند کرائے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے عوام شدید مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ عوام ہوشیاری سے اپنا کاروبار کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی شخص تجارت کی آڑ میں شریعت اور قانون کی خلاف ورزی نہ کرے۔ در اصل امن وامان عوام کی حمایت کے بغیر بحال نہیں ہوسکتا۔ متعلقہ ادارے، حکام اور اصحاب حل وعقد کو بھی صحیح پلاننگ سے کام لینا چاہیے۔ مشترکہ بارڈر تجارت کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔ یہ مسئلہ قانونی طریقے سے حل ہونا چاہیے۔ خیال رہے جناب گورنر، اراکین پارلیمنٹ اور علمائے کرام اس سلسلے میں کوشاں ہیں۔ امید کی جاتی ہے جلد از جلد عوام کی یہ پریشانی اور دغدغہ ختم ہو۔