- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

جہنم جانوروں کیلیے نہیں نافرمان انسانوں کیلیے بنائی گئی ہے: خطیب اہل سنت

molana22خطیب اہل سنت والجماعت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اس ہفتے کے بیان میں انسان کے عظیم مقام کے بارے میں گفتگو فرمائی۔ حضرت شیخ الاسلام نے قرآنی آیت کی تلاوت کرتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ پوری کائنات اور مخلوقات کو انسان کی خدمت کیلیے خلق فرما کر انسان کو تمام مخلوقات سے افضل واشرف قرار دیا۔ جس طرح قرآن میں آتاہے: اللہ تعالیٰ نے جو کچھ زمین میں ہے انسان کے لیے خلق فرمایا ہے۔ اسی طرح فرمان الہی ہے۔۔۔۔ ہم نے بنی نوع انسان کو عزت دی اور برو بحر کو اس کی خدمت کے لیے اس کے قبضے میں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کو تمام نعمتوں اور خوبصورتیوں سے مزین کرکے انسان کے لیے پیدا کیا۔ انسان کو اپنی خاص توجہات سے نوازا اور اس سے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا۔

یہی انسان جو اشرف المخلوقات ہے جب قرآنی تعلیمات سے روگردانی اختیار کرتاہے اور کلام خداوندی کی تربیت سے محروم ہوجاتاہے تو جانوروں سے بھی بڑھ کر درندہ اور نکما ہوجائے گا۔ جب انسان اپنی حقیقت بھول جاتاہے تکبر، عجب اور خودپسندی کا شکار ہوجاتاہے، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگتاہے، یا بخل اور جاہ ومال کی لالچ میں مبتلا ہوجاتاہے، جھوٹ، خیانت اور حسد سے خود کو ملوث کرتاہے اور بری صفات ورذیلہ اخلاق کی مجسم شکل بن جاتاہے۔
تو یہ انسان اپنے عظیم مقام ومرتب سے گر کر خدا کی سزا ولعنت کا مستحق ٹھہر جاتاہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزید کہا اللہ تعالیٰ نے جہنم کو جانوروں اور درندوں کیلیے خلق نہیں کیا ہے جہنم سرکش اور نافرمان انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ جو انسان اپنی قدر و قیمت سے ناآگاہ رہتاہے اور اپنے اصل مقام سے دور ہوجاتاہے، اپنے خالق کے عظیم احسانات کو بھول جاتاہے تو اس کی ٹھکانہ منزل جہنم ہی ہے۔
قرآن پاک میں قابیل کی مثال انسانیت کی تاریخ میں سب سے پہلے قاتل اور سرکش فرد کی ہے جبکہ بلعم باعورا کی مثال یہودی عالم دین کی حیثیت سے آئی ہے جسے کتے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ انسان کا اپنے مقام سے گناہوں کی وجہ سے سقوط کی دو مثالیں قابیل اور بلعم باعورا ہیں جنہوں نے معصیت کا ارتکاب کیا، احکام الہی کو نظر انداز کردیا اور ناکامی وتباہی کی مثالیں بن گئے۔
اس کے بعد خطیب اہل سنت زاہدان نے قرب الہی، یوم آخرت کے عذاب سے بچنے اور جنت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے راستوں کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کمال انسانیت تک پہنچنے کے لیے نماز اور زکات کی ادائیگی سب سے بہترین ذریعے ہیں۔ نماز کی پابندی سے انسان کی اصلاح ہوجاتی ہے، معاشرے میں ایک گونہ معنوی و روحانی فضا قائم ہوجاتی ہے اور نماز ہی کی بدولت انسان پر اس کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔ نماز کا شمار اہم عبادات میں ہوتاہے جس کا مقام ایمان کے بعد ہے۔ فردی واجتماعی زندگی میں نماز کی تاثیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا یقین کیجیے اگر آپ اللہ کا قرضہ اداء کیا کریں تو اللہ تعالیٰ تمہیں یہ توفیق دیدیگا کہ آپ اس کے بندوں کے قرضے دیکر فارغ الذمہ ہوجائیں۔
دارالعلوم زاہدان کے سرپرست اور خطیب جامع مسجد مکی نے زکات کو اخلاقی اور مالی مسائل سے نجات حاصل کرنے کا بہترین راستہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا لوگوں کو بخل اور لالچ کی بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے زکات فرض کی گئی۔ بلاشبہ جومالدار شخص زکات نہیں دیتا ہے وہ کنجوسی، بخل اور لالچ کی بیماری کا شکار ہوجاتاہے۔
انہوں نے مزید کہا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے تین درجے ہیں۔ پہلا اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ امیر ومالدار شخص زکات اداء کرنے پر اکتفا کرے اس سے زائد انفاق نہ کرے۔ دوسرا درجہ جسے متوسط کہہ سکتے ہیں یہ ہے کہ زکات کے علاوہ صدقہ بھی کیاجائے۔ جبکہ تیسرا اور سب سے اونچا درجہ پورا مال خرچ کرنے کا ہے جیساکہ صحابہ کرام (رض) نے کیا۔
حضرت شیخ الاسلام نے حاضرین کو روزانہ غریبوں اور نادار لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا جو افراد مالی استطاعت نہیں رکھتے ان کا صدقہ وانفاق یہی ہے کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کریں، ذکر وتلاوت کریں، ناتوان وعاجز لوگوں کی خدمت کیا کریں۔
آخر میں حضرت شیخ الاسلام نے آیت الہی۔۔۔۔۔ کی تلاوت کرکے سب کو توبہ کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا ہوسکتاہے تم سے ایک ایسے عمل کا ارتکاب ہوا ہو جو خدا کی نارضایتی کا موجب ہے یا آپ نے خالق کی عبادت کی ہے مگر اللہ کے دربار میں قبول نہ ہوا ہو اس لیے توبہ کیجیے۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ستر مرتبہ استغفار فرماتے تھے جبکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق روزانہ سو مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے توبہ صابوں کی طرح ہے اور انسان کو گناہوں سے صاف کرکے دھوتی ہے۔
اللہ کے نیک بندے روزہ رکھتے ہیں تو توبہ بھی کرتے ہیں، نماز پڑھ کر استغفار کرتے ہیں کہ کہیں جس طرح انہیں عبادت کرنی چاہیے تھی انہوں نے نہ کیاہو۔
حضرت شیخ الاسلام نے مولاناعبدالعزیز بانی دارالعلوم زاہدان کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ آخر عمر میں ہمیشہ روتے تھے اور رونے کی وجہ یہ فرماتے تھے کہ ماضی کی توبوں پر روتاہوں کہیں ان میں ریا اور دکھاوے کی ملاوٹ تو نہیں تھی۔